ستمبر کے آخری ہفتے میں پاکستانی وزیر خارجہ نے جو جو انکشافات امریکا پہنچ کر ایک سیمینار میں کیے اس پر وزیر خارجہ کی ہمت کو ایک جانب داد دینے کو دل چاہتا ہے تو دوسری جانب ان پر دباؤ اور بوجھ کا انبار نظر آتا ہے کہ بھلا وہ کس طرح آزاد خارجہ پالیسی کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ جیسی بھی خارجہ پالیسی ہو مگر نواز شریف کی روانگی کے بعد کم ازکم وزارت خارجہ کا دفتر تو کھلا، اس کا سہرا بھی برکس کانفرنس کو جاتا ہے۔
وہ حقانی نیٹ ورک، حافظ سعید جیسے عناصر پر تنقید نہ کرتے تو پاکستان کو وزیر خارجہ کا خیال نہ آتا۔ ذرا غور تو فرمائیے پاکستان جیسا اہم ملک جس کے پاس ایٹمی اسلحہ ہو، جس کا محل وقوع بحیرہ عرب کی گزرگاہ اور ساتھ ہی ایشیائی وسطی ریاستوں کی گزرگاہ اور کوئی وزیر خارجہ نہ ہو اور نہ خارجہ امور پر کوئی گفت و شنید۔ بس لے دے کر امریکی موضوعات پر گفتگو کرنے کے لیے چند افراد، جن کا ہند چینی ریاستوں سے کوئی تعلق اور نہ ایشیائی ریاستوں سے اور نہ عرب جنگ سے، جو فرنٹ لائن عراق، کردستان فرنٹ، شام اور لبنان جیسے اہم فرنٹ کے ممالک سے ناواقف ہیں، نہ ہی ان کو اہمیت دی گئی۔ یہ تو بہت بہتر ہوا کہ خواجہ آصف کو اس موقع پر فرنٹ پر لایا گیا، جنھوں نے کم ازکم افغانستان کی جنگی تاریخ تو پیش کی اور اس حقیقت کا اعتراف کیا۔
افغان جنگ کی ابتدا اور اس کی پیش رفت، پاکستان کی تباہی اسی راہ پر چلنے میں پوشیدہ ہے اور ناپسندیدہ عناصر سے جلد یا بدیر وہ جان چھڑالیں گے، مگر وہ اس راز کو افشا نہ کرسکے کہ آخر وہ کون سی قوتیں ہیں جو ان کو مجبور کر رہی ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ وہ ان سے پیچھا چھڑالیں، مگر وہ ایسا نہیں کرپاتے۔ گویا وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ملک میں دو مساوی قوتیں موجود ہیں جو ان کی راہ میں حائل ہیں اور وہ عملی طور پر اپنی پالیسیوں کو نافذ نہیں کرپاتے۔ اس قسم کی آواز کا بیرون ملک سیمینار میں بلند ہونا ایک منفی عمل یقیناً ہے جس کے اثرات بیرون دنیا پر یہ پڑیں گے کہ حافظ سعید اور ان کے ہمنوا عملی طور پر ایک موثر قوت ہیں۔
درحقیقت حکمران جماعت ایک اتنی کمزور تنظیم ہے جو اپنی پالیسی کو نافذ کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ ایسی کمزور جماعت کبھی بھی اپنی ساکھ کھو بیٹھ سکتی ہے۔ لہٰذا ایسی حکومت جو خود ڈگمگا رہی ہو وہ کس طرح دوسرے ملک سے معاہدے کر سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بیرون ملک میں وزیر خارجہ کا مضبوط تاثر ممکن نہیں۔ اچھے اور برے طالبان ماضی کی ایک اصطلاح رہی ہے اور ایک وقت ایسا بھی لوگوں نے دیکھا جب طالبان اور دیگر تنظیموں سے بات چیت شروع ہوچکی تھی لہٰذا یہ کہنا درست نہیں کہ ماضی میں جمہوری حکومت کا ان سے کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ اگر ان لوگوں سے تعلق نہ تھا تو پھر طالبان اور ان کے ہمنواؤں سے تعلق کیوں تھا اور بات چیت کس نے شروع کی؟
ہمارے ملک کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں میں تضاد ہے کہ بیرون ممالک مشکوک کیوں نہ ہوں۔ افغانستان سے گفتگو ہماری سیاسی قیادت کو کرنی چاہیے جب کہ ایسا نہیں کیا جا رہا۔ امریکا کی طرف سے افغان مسئلے کا حل محض اس صورت میں قابل قبول ہے کہ بھارت کا اس راہ میں کلیدی کردار موجود ہو اور اشرف غنی کو بھی یہی راستہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔ جب کہ امریکی وزیر دفاع جیمس میٹس اور نیٹو کے جنرل سیکریٹری جینز اسٹیوٹین برگ کا بھی یہی خیال ہے، بھارت کے کلیدی کردار سے پاکستانی قیادت متفق نہیں۔
ظاہر ہے اس موقع پر وزیر خارجہ کا کردار خوش آیند ہے، جو ظاہری طور پر نظر نہیں آرہا ہے جب کہ ہمارے وزیر خارجہ امریکا کی افغان پالیسی کو غلط قرار دے چکے ہیں، اور پاکستان کے دانشور بھی اسی خیال سے متفق نظر آتے ہیں، جب کہ بائیں بازو کے دانشور تو ابتدا سے ہی اس خیال کی تائید کرتے رہے اور ایک وقت دنیا میں ایسا بھی آیا جب دنیا میں ایک عشرے سے زائد وقت تک کوئی بھی قوت ایسی نہ تھی جو امریکی حکمت عملی کو مسترد کرنے کے قابل ہو۔
ایک طویل عرصے کے بعد داعش جو مغربی ممالک کا بغل بچہ تھی، اس کو شام اور عراق نے چیلنج کیا، جن کو روس کی تائید حاصل تھی اور آخرکار عرب دنیا میں امریکی قوت کمزور ہوگئی، یہاں تک کہ ترکی میں بھی امریکی اثرات منقسم ہوکر رہ گئے اور پاکستان میں افغان مسئلے پر اختلاف رہا۔یہ مسئلہ اس قدر پیچیدہ ہوگیا کہ پاکستان کی عسکری قوت کے سربراہ کی افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات اور گفت و شنید اور مسائل کے حل پر مثبت خیالات کے اظہار کے باوجود پاکستانی چوکی پر افغان سمت سے حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں صوبیدار اظہر علی کو جام شہادت نوش کرنا پڑا۔
ان اتفاقی حملوں کے تبادلے کے باوجود بھی افغانستان کی طرف سے کسی قسم کی اظہار شرمندگی کا بیان نہ آیا، البتہ افغان چیف ایگزیکٹیو عبداللہ عبداللہ کے ایک نمایندے نے یہ ظاہر کیا کہ اب افغان حکومت پاکستان سے گفتگو کرے گی۔ واضح رہے کہ عبداللہ عبداللہ افغان حکومت کے سرکردہ ترین شخصیت ہیں اور بھارت کے ہمنوا ہیں۔
طالبان جنگ کے دوران یہ شمالی اتحاد کے لیڈر تھے اور ان کے خاندان کے بیشتر لوگ بھارت میں ہی قیام پذیر ہیں اور امریکا کے بیشتر سفارتکار اس بات پر متفق ہیں کہ خطے میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بھارت کی شمولیت ضروری ہے، جب کہ یہ دونوں ملک خود کشمیر کی بھڑکتی ہوئی جنگ میں نظریاتی طور پر ایک دوسرے کے شدید مخالف ہیں۔ اس پرپیچ رہ گزر پر بھارت اور پاکستان کس طرح ایک دوسرے سے متفق ہوں گے۔ یہ بات تو امریکی سیاست کاروں کے سوچنے کی ہے کہ وہ ایسے موقع پر کس طرح متحد کر رہے ہیں، جہاں خود ان دونوں میں نظریاتی اتحاد نہیں اور اس فرنٹ پر ہماری سیاسی اور عسکری قوتیں زور و شور سے لگی ہوئی ہیں۔ یہی وہ راہ ہے جس کو غیر ملکی قوتیں غلط انداز میں تجزیہ کرتی ہیں۔
حال ہی میں سابق وزیراعظم نے جنرل کونسل سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ مجھے سیاست سے نکالتے ہیں اور عوام مجھے داخل کرتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ مزیدکہتے ہیں کہ پاکستان ان لوگوں کو معاف نہیں کرے گا۔ جنرل کونسل نے سابق وزیراعظم کو پارٹی کا صدر منتخب کرلیا۔ ایسی گفتگو پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ملک میں دو قوتیں اقتدار میں ہیں، ایک وہ قوت جو نواز شریف کو مسند پر بٹھانا چاہتی ہے اور دوسری وہ جو ان کو مسند نشین کرنے کے شدید خلاف ہے۔
ظاہر ہے اس قسم کی گفتگو دنیا کو یہ موقع دے رہی ہے کہ وہ یہ سوچیں کہ پاکستان نہ کوئی جمہوری ملک ہے اور نہ آمرانہ بلکہ دونوں کا ملا جلا مرکب۔ ظاہر ہے ایسے ملک کی عالمی سطح پر کیا قوت ہوسکتی ہے۔ ایسے ملک پر پاکستان کے مشہور وزیراعظم کا مکا جو اتحاد کی علامت کے طور پر انھوں نے دوران تقریر نمایاں کیا تھا، اتحاد کی علامت بن گیا تھا۔ مگر اب وہ لوگ کہاں؟ لیڈری ملک کو تقویت دینے کے لیے نہیں، یہ بھی بغیر فیکٹری کے پیسہ پیدا کرنے والی مشین ہے۔
کوئی پوچھنے والا نہیں کہ اشیائے صرف کیوں مہنگی، پیاز اور ٹماٹر 200 روپے کلو کیوں؟ تیل کی قیمت کیوں بڑھائی؟ دنیا میں تو تیل کا کوئی بحران نہیں۔ عوام کو سہولت دینے کی کوئی بات نہیں کرتا، مصنوعی جنگ میڈیا پر لڑی جا رہی ہے، عوام کو الجھانے کے لیے کہ حکومت کی طرف نگاہ نہ اٹھے۔ افسوس کہ پاکستان کو افغانستان کے مدمقابل لاکھڑا کیا کہ ہم اس جیسی حکومت سے جواب و سوال کریں۔ آخر ہم کب تک امریکا کی لگائی گئی پنیریوں کی آبیاری کرتے رہیں گے؟