سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کوئی معمولی سیاسی واقعہ نہیں۔ جی ٹی روڈ احتجاجی ریلی میں جس درشت لہجہ میں انھوں نے عدالتی فیصلہ پر تنقید کی، وہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے کہ ان کو اس طرح اپنے نااہل ہونے کی قطعاً کوئی توقع نہ تھی، تیسری بار بھی ان کو وزیراعظم ہاؤس سے اپنی مرضی کے خلاف ہی رخصت ہونا پڑا۔ مگر جس چیز کا شاید ان کو سب سے زیادہ صدمہ پہنچا ہے، وہ یہ ہے کہ فی الحال ان کی اولاد بھی ان کی جانشین بننے کی اہل نہیں رہی۔مستزاد یہ کہ وہ پارٹی صدارت کے لیے بھی نااہل قرار پاچکے ہیں، اور اب سردار یعقوب ان کی جگہ پارٹی صدر ہیں۔
نااہلی کے فوراً بعد پہلے تو یہ خبر آئی کہ نوازشریف براستہ موٹر وے لاہور پہنچیں گے۔ یہ رائے چوہدری نثارعلی خاں اور شہباز شریف کی تھی؛ مگر پھر یہ اطلاع موصول ہوئی کہ نوازشریف براستہ جی ٹی روڈ لاہور پہنچیں گے۔ کہتے ہیں، ان کے اخباری دوستوں نے ان سے کہا کہ محمد خان جونیجو کی طرح چپ چاپ اسلام آباد سے کوچ کر جانے سے ان کو سیاسی طور پر بہت نقصان ہوگا۔ لاہور سے اسلام آباد جی ٹی روڈ کے اطراف نشستیں انھی کے حامیوں کے پاس ہیں ۔ چنانچہ ان کے جی ٹی روڈ پر چڑھتے ہی ان کا حامی ووٹ بینک کسی سیلاب کی طرح امڈ آئے گا ، اور پارٹی کے اندر اور باہر ان کی سیاسی پوزیشن کو ازسرنو مستحکم کر دے گا۔
یہ رائے نوازشریف کے دل کو لگی ، اور انھوں نے جی ٹی روڈ کے راستہ لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ ن لیگی حلقوں کی طرف سے یہ خبر بھی پھیلائی گئی کہ چوہدری نثارعلی خاں اور نوازشریف کے درمیان شکررنجی دور ہو چکی ہے اور وہ ہی جی ٹی روڈ پر نوازشریف کی گاڑی ڈرائیو کریں گے۔ مگر چوہدری نثارعلی خاں سرے سے نوازشریف ریلی میں ہی شریک نہ ہوئے۔ مزید ستم یہ ہوا کہ ریلی اپنی پہلی منزل راولپنڈی پر ہی مشکلات کا شکار ہو گئی۔ حنیف عباسی کا دعویٰ تھا کہ راولپنڈی میں نوازشریف کااستقبالی جلوس تاریخ رقم کرے گا، مگر ایسا نہ ہو سکا۔
گزشتہ روز جب یہ ریلی ایک سو چالیس کلومیٹر کی رفتار سے فراٹے بھرتی جہلم پہنچی، جو یہ سمجھنا مشکل نہیں تھا کہ جی ٹی روڈ ریلی اب عملی طور پر جی ٹی روڈ پر واقع جہلم چوک، گجرات چوک، گوجرانوالہ چوک اور مریدکے چوک میں احتجاجی جلسوں کے پروگرام میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ آخری جلسہ داتا دربار چوک لاہور میں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جی ٹی روڈ پر اس کے بعد یہ ریلی اس طرح نظر نہیں آئی، جس طرح اگست 2014 ء میں عمران خان اور طاہرالقادری کی ریلیاں دن رات نظر آتی رہی تھیں، یا2007ء میں معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ریلی مسلسل ستائیس گھنٹے تک گشت کرتی آئی تھی۔
جی ٹی روڈ پر نوازشریف کے احتجاجی جلسوں میں لوگوں نے شرکت ضرور کی، مگر ان کی تعداد کوئی ایسی غیرمعمولی نہ تھی۔ ان احتجاجی جلسوں کی خاص چیز نوازشریف کی جذباتی تقریریں تھیں ، جن میں انھوں نے کبھی کسی ’’گرینڈ ڈائیلاگ‘‘ کی بات کی اور کبھی آئین میں تبدیلی کا ذکر کیا۔ ’’گرینڈ پولیٹیکل ڈائیلاگ‘‘ کی بات تو سمجھ سے باہر ہے کہ یہ ڈائیلاگ وہ کس کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں۔
مگر ان کی یہ بات سمجھ میںآتی ہے کہ وہ آئین کی دفعہ 62 میں ترمیم کے خواہاں ہیں۔ اس طرح کی بات پیپلزپارٹی کے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے بھی کی ہے، بلکہ وہ مذکورہ دفعات کو عدالتی اٹھاون ٹو بی کا نام بھی دے چکے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ دونوں کے وزرائے اعظم مذکورہ دفعات کی زد میں آ کر نااہلیت کا مزہ چکھ چکے ہیں۔ بلکہ جن دنوں یوسف رضا گیلانی کو نااہل قرار دیا گیا، آئین کی مذکورہ دفعات کے بارے میں پیپلز پارٹی کے جذبات بھی وہی تھے ، جو اب ن لیگ کے ہیں۔
پیپلزپارٹی یہی کہہ رہی ہے کہ وہ نوازشریف کی اس طرح کی تجاویز کی حمایت نہیں کرے گی ، مگر یہ حقیقت ہے کہ درون خانہ وہ بھی آئین کی مذکورہ دفعات کو ختم کرنا چاہتی ہے ۔اس کی حکمت عملی یہ ہے کہ اس طرح کی تبدیلی اس وقت نہ ہو کیونکہ ابھی اس کا فائدہ صرف نوازشریف کو ہو گا۔ گویا فی الحال گرینڈ ڈائیلاگ او ر آئین میں دفعہ 62 میں تبدیلی کی تجاویز پر کسی پیش رفت کاکوئی امکان نہیں ہے۔
نوازشریف کی نااہلی آئین کے آرٹیکل 62-1(f) کے تحت ہوئی ہے، جو تاحیات نااہلی کے زمرے میں آتی ہے۔ نظرثانی کی درخواست انھوں نے دائرکی ہے، مگر اس کا اسکوپ بڑا محدود ہے۔ نواز شریف کے لیے یہ چیز بھی پریشانی کا باعث ہے کہ نیب میں ان کے خلاف ریفرنسز پر کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ ایک ریفرنس میں ان کو اور ان کے دونوں بیٹوں کو نوٹسز جاری ہو گئے ہیں۔
نوازشریف نے اسلام آباد سے لاہور واپسی کے سفر کے دوران اپنے کارکنوں کو یہ باور کرانے کی بھرپور سعی کی کہ سپریم کورٹ نے ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا۔ مگر آیندہ چند دنوں میں، جب نیب ریفرنسز پر کاروائی آگے بڑھے گی تو ان کا یہ بیانیہ اپنی معنویت کھو دے گا، کیونکہ یہ تمام ریفرنسز کرپشن اور منی لانڈرنگ سے متعلق ہی ہیں۔ یہ ریفرنسز اگر واقعی اگلے چھ مہینوں میں فیصل بھی ہو جاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ جو بھی فیصلے ہوں گے آیندہ الیکشن سے پہلے پہلے منظر عام پر آ جائیں گے۔ جب کہ دفعہ 62-1(f) کے تحت نااہلی بھی اپنی جگہ موجود رہے گی۔
نوازشریف اپنی سیاسی زندگی میں پہلی بار ایک ایسی بند گلی میں آ نکلے ہیں، جہاں ان کو آگے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ سخت مضطرب ہیں؛ مثلاً: پہلے انھوں نے اپنی خالی کردہ نشست پر شہباز شریف کو منتخب کرا کے مستقل وزیراعظم بنانے کا اعلان کیا، پھر کہا کہ خاقان عباسی ہی مستقل وزیراعظم رہیں گے، اور اب اپنی بیگم صاحب کو منتخب کراکے قومی اسمبلی میں پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اسی طرح پہلے براستہ موٹر وے اسلام آباد سے لاہور آنے کا اعلان کیا، پھر براستہ جی ٹی روڈ احتجاجی ریلی لے کر لاہور پہنچنے کا فیصلہ کیا اور آخر میں ریلی کو احتجاجی جلسوں میں تبدیل کر دیا۔
کچھ اسی قسم کی صورت حال ان کے آئے روز بدلتے بیانیوں کی ہے ۔ وہ کہتے ہیں ان کے خلاف سازش ہوئی ہے۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ کس نے سازش کی ہے تو وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے پاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ان پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں ، مگر سپریم کورٹ کی طرف سے نیب کو بھجوائے گئے ریفرنسز ان کے اس موقف کی نفی کرتے ہیں۔ نوازشریف کو اپنی سیاسی زندگی میں چونکہ کبھی اس طرح کے غیر یقینی حالات کا سامنا نہیں ہوا۔ شاعر نے کہا تھا،
پہلے آتی تھی حال دل پر ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی