گو کہ اب محصور افراد کو نکالنے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن شام میں باغیوں کے زیر قصبہ شمالی حلب میں موجود عام شہریوں اور جنگجوؤں کے بارے میں خدشات بڑھ رہے ہیں۔ نکلنے والے زیادہ تر افراد ہمسایہ صوبے ادلب میں پناہ لے رہے ہیں جہاں امدادی تنظمیوں کے مطابق حالات ناساز گار ہیں خوراک اور ادویات کی قلت ہے۔
کتنے افراد کا انخلا ہوا ہے؟
سیرین اوبزویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطانق علاقے سے تین ہزار جنگجوؤں سمیت کم سے کم چھ ہزار افراد نکلے ہیں، جن میں تین سو افراد زخمی ہیں۔
علاقے میں موجود کئی جنگجوؤں نے نکلنے سے انکار کر دیا ہے۔ بعض نے شامی افواج میں زبردستی شمولیت اور حراست میں لیے جانے کے خدشات کا اظہار کیا جبکہ باقی جنگجوؤں کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی افواج کے سامنے مزاحمت کریں یا لڑتے ہوئے مر جائیں گے۔
شام کے حوالے سے اقوام متحدہ کے سفیر سٹفین ڈی مستورا کے اندازے کے مطابق شمالی حلب میں ابھی 50 ہزار افراد موجود ہیں جن میں 40 ہزار عام شہری ہیں۔
حلب میں کیا ہو رہا ہے؟
جمعے کو باغیوں کے زیر قصبہ علاقوں میں محصور افراد کو نکالنے کے لیے کیا گیا معاہدہ دو حکومتوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں کی اتنظامیہ میں تنازعات کے باعث تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
اس تاخیر کی وجہ سے سنیچر کو ہزاروں افراد راستے میں پھنس گئے تھے بعض اطلاعات کے مطابق ان افراد نے سردی میں رات گزاری اور اُن کے پاس بہت کم خوراک موجود تھی۔
اتوار کی صبح انتظامیہ میں اختلاف ختم ہونے کے بعد معاہدے پر دوبارہ سے عمل درآمد شروع ہوا۔
حلب سے نکلنے والے افراد کہاں جا رہے ہیں؟
باغیوں کے زیر کنٹرول علاقوں سے نکلنے والے افراد ادلب، کفریا اور فوعہ جا رہے ہیں۔ امدادی کارکنوں کے مطابق کئی افراد نے عارضی کیمپوں میں پناہ لی ہے جبکہ کچھ اپنے رشتے داروں کے مکان پر رہ رہے ہیں۔
عالمی ادارہِ صحت کا کہنا ہے کہ انتہائی زخمی افراد کو جنوبی حلب کے ہسپتالوں میں داخل کیا گیا ہے۔ ان افراد کی آنکھ یا اعضا متاثر ہیں جبکہ بعض کو دماغی امراض لاحق ہیں۔
جنگ زدہ حلب سے نکلنے والی باقی افراد ادلیب یا ترکی میں پناہ لے رہے ہیں۔
ادلب کی کیا صورتحال ہے؟
انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی کا کہنا ہے کہ بہت سے علاقوں میں حالات پہلے ہی نا مناسب ہیں، بڑی تعداد میں خاندان زیر تعمیر عمارتوں میں رہ رہے ہیں جہاں بیت خلا، پانی اور گرمائش کا انتظام نہیں ہے اور دیہی علاقوں میں بھی بہت ہجوم ہے۔
ادلب میں ایک عارضی ہسپتال کے ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہاں مریضوں کی نگرانی کے لیے آلات نہیں ہیں یہاں تک کہ انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں بھی ونٹیلیٹر نہیں ہے۔
اس سے پہلے ترکی کے نائب وزیراعظم نے کہا تھا کہ ادلیب میں ‘اتنی گنجائش نہیں ہے کہ وہاں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو پناہ دی جائے۔’
آئی ار سی کے مطابق ادلب میں 230000 متاثرین مقیم ہیں اور یہاں 250 غیر رسمی کیمپ ہیں۔
کیا یہ افراد ادلیب میں محفوظ ہیں؟
امدادی اداروں نے، ادلیب جو شامی حزبِ اختلاف کا گڑھ ہے، وہاں سکیورٹی کی صورتحال پر بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔ادلیب کا زیادہ تر علاقہ باغیوں کے اتحادی گروہ انصرہ فرنٹ کے کنٹرول میں ہے۔
اس صوبے پر بھی کئی بار شامی اور روسی فضائیہ کے لڑاکا طیاروں نے بمباری کی ہے اور تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ شامی حکومت کا اگلا ہدف بھی یہی ہے۔
سٹفین ڈی مستورا کا کہنا ہے کہ ‘اگر جنگ بندی یا سیاسی معاہدہ نہیں ہوا تو حلب کے بعد ادلب اگلا ہدف ہے۔’
کفریا اور فوعہ میں کیا ہو رہا ہے؟
آئی سی آر سی کے مطابق کفریا اور فوعہ جو شیعہ اکثریت کے قصبے ہیں وہاں 20 ہزار افراد نے پناہ لی ہے۔
حکومتی حمایت یافتہ جنگجؤ جو سنہ 2015 میں علاقہ چھوڑ آئے تھے اُن کا کہنا ہے کہ مقامی آبادی خوراک نہ ہونے کے سبب گھاس کھا کر گزارا کرنے پر مجبور ہے جبکہ ہسپتالوں کی یہ حالت ہے کہ زخمی افراد کو بے ہوش کیے بغیر ہی آپریشن کیا جا رہا ہے۔