لاہور (ویب ڈیسک) اگر کوئی کرکٹر یہ کہے کہ اس نے کوئی اننگز کھیلنے کے بعد دوبارہ اسے ٹی وی پر نہیں دیکھا تو یہ حیران کن بات نہیں۔ لیکن اگر کوئی کرکٹر یہ کہہ دے کہ وہ اپنی ہی سوانح حیات کو تقریبِ رونمائی میں پہلی بار دیکھ رہا ہے تو نامور صحافی عبدالرشید شکور اپنے ایک خصوصی مضمون میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ یہ ضرور حیران کن بات ہے۔شاہد آفریدی نے یقیناً اپنی سوانح حیات ’گیم چینجر‘ کا مسودہ لکھے جانے کے بعد اسے ایک نظر ضرور دیکھا ہو گا یا کم از کم مصنف سے یہ استفسار تو کیا ہو گا کہ انھیں پڑھ کر سنا دے کہ اس میں کیا کچھ ہے۔اگر ایسا ہے تو پھر ان کی اس کتاب میں حقائق کی غیرمعمولی غلطیاں کیسے رہ گئیں جس سے نہ صرف اس کتاب بلکہ خود ان کی اپنی ساکھ متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔عام طور پر کرکٹرز اپنی کتاب کے لیے ایسے مصنفین کا انتخاب کرتے ہیں جو کرکٹ کے کھیل کو اچھی طرح سمجھتے ہیں اور وہ جو کچھ بیان کر رہے ہوتے ہیں اس بارے میں تحقیق کر کے اسے مستند حیثیت دیتے ہیں۔کرکٹ پر عام طور پر جتنی بھی بڑی اور مستند کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ناشرین بھی اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے ان کتابوں میں موجود اعدادوشمار اور دیگر حقائق کی تصدیق کے لیے کسی ماہر کی خدمات حاصل کرتے ہیں تاکہ وہ حقائق مسخ یا توڑ مروڑ کر پیش نہ کیے جا سکیں۔شاہد آفریدی کے مطابق ’کپتان وسیم اکرم اور چیف سلیکٹر صلاح الدین ستی کی وجہ سے وہ ٹیم میں شامل ہو سکے۔‘حقیقت یہ ہے کہ صلاح الدین ستی کبھی پاکستانی ٹیم کے چیف سلیکٹر نہیں رہے وہ ایک اعلیٰ فوجی افسر ہیں جو لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر فوج سے ریٹائر ہوئے ہیں۔شاہد آفریدی دراصل سابق ٹیسٹ کرکٹر صلاح الدین صلو کا نام لینا چاہ رہے تھے جو اس وقت چیف سلیکٹر تھے۔ شاہد آفریدی کا خود کہنا ہے کہ وہ 1977 میں پیدا ہوئے تھے۔جاوید میانداد کا انڈیا کے بولر چیتن شرما کو شارجہ میں لگایا گیا چھکا کسے یاد نہیں۔ اس واقعے کو 30 برس سے زیادہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود وہ شاٹ اور میچ لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہے۔تاہم شاہد آفریدی کے معاملے میں شاید ایسا نہیں۔ان کی کتاب میں جہاں اس مشہور چھکے کا ذکر کیا گیا ہے وہاں کہا گیا ہے کہ یہ میچ 1987 میں کھیلا گیا جبکہ درحقیقت جاوید میانداد نے وہ چھکا 1986 میں لگایا تھا۔شاہد آفریدی نے ایک جگہ یہ لکھ کر سب کو حیران کردیا ہے کہ 2005 میں پاکستان نے انضمام الحق کی قیادت میں بنگلور ٹیسٹ ڈرا کیا تھا۔حقیقت یہ ہے وہ ٹیسٹ پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کے یادگار ترین میچوں میں سے ایک ہے جو پاکستان جیتا تھا۔اسی سیریز کے پہلے ٹیسٹ کے طور پر شاہد آفریدی نے دہلی کا نام لیا ہے جبکہ وہ ٹیسٹ موہالی میں کھیلا گیا تھا۔ایک اور اہم غلطی جو اس کتاب میں موجود ہے وہ شاہد آفریدی کے اولین ون ڈے انٹرنیشنل کے بارے میں ہے۔انھوں نے لکھا ہے کہ وہ 17ویں یا 18ویں اوور میں بولنگ کے لیے آئے اور بہت جلدی وکٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔تاہم اگر کینیا کے خلاف کھیلے گئے اس میچ کا ریکارڈ دیکھا جائے تو شاہد آفریدی نے اپنے پہلے ون ڈے انٹرنیشنل میچ میں دس اوورز کیے لیکن انھیں کوئی بھی وکٹ نہیں ملی تھی۔شاہد آفریدی نے اپنی کتاب میں بھارتی کرکٹر گوتم گمبھیر کے ساتھ میدان میں ہونے والی تلخ کلامی کا ذکر بھی کیا ہے۔تاہم ان کے مطابق یہ تلخ کلامی 2010 کے ایشیا کپ کے دوران ہوئی تھی حالانکہ یہ واقعہ 2007 میں پاکستانی ٹیم کے دورۂ بھارت کے موقع پر پیش آیا تھا۔شاہد آفریدی کی کتاب منظرِ عام پر آنے کے بعد ان دونوں کھلاڑیوں کے درمیان ایک بار پھر زبانی جنگ چھڑ گئی۔آفریدی نے اپنی کتاب میں گوتم گمبھیر کو ایک منفی شخص کہا ہے بلکہ کتاب کی تقریب رونمائی میں بھی انھوں نے گوتم کا طنزیہ انداز میں ذکر کیا اور ان کا علاج کرانے کی پیشکش کی۔اس پر گوتم گمبھیر نے شاہد آفریدی پر جوابی وار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھیں کسی ماہر نفسیات سے رجوع کرنا چاہیے اور وہ اس سلسلے میں انڈیا میں شاہد آفریدی کی مدد کرنے کے لیے تیار ہیں۔شاہد آفریدی کی کتاب میں جاوید میانداد کے شارجہ کے مشہور چھکے کا برس بھی غلط لکھا گیا ہے۔شاہد آفریدی نے جب ون ڈے انٹرنیشنل میں 37 گیندوں پر سنچری بنائی تھی تو اس وقت یہ ریکارڈ بک میں ون ڈے میں سب سے کم عمری میں بنائی گئی سنچری کے ریکارڈ کے طور پر درج ہوئی تھی اور آج تک یہ 16 سال 217 دن کی عمر میں بنائی گئی سنچری سب سے کم عمر انٹرنیشنل سنچری مانی جاتی ہے۔لیکن شاہد آفریدی کی کتاب کی وجہ سے ان کا یہ ریکارڈ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے۔شاہد آفریدی نے اپنی کتاب کی ہارڈ کاپی میں اپنی پیدائش 1975 اور ای کاپی میں 1977 درج کی ہے۔ خود ان کا کہنا ہے کہ وہ 1977 میں پیدا ہوئے تھے۔ اس لحاظ سے جب انھوں نے37 گیندوں پر سنچری بنائی تھی وہ 21 سال کے تھے۔ماضی میں پاکستان کے نوجوان کرکٹرز کی عمر کو دنیا بھر میں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ پاکستانی کرکٹرز کی اکثریت مستند برتھ سرٹیفکیٹس کے بغیر بین الاقوامی کرکٹ کے دھارے میں آتی رہی ہے جس کی وجہ سے ان کی عمر پر ہمیشہ سوالیہ نشان لگتے رہے ہیں۔اس کی ایک بڑی مثال حسن رضا ہیں جو ٹیسٹ کرکٹ کا آغاز کرنے والے دنیا کے سب سے کم عمر کرکٹر قرار دیے جاتے ہیں لیکن وزڈن اس عالمی ریکارڈ کو تسلیم نہیں کرتا۔