؎ کاش دیکھوکبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہوتو پھراپنا پرایا کیا ہے
قائداعظم یونیورسٹی میں واقع طبیعیات کے جس مرکز کا نام سنہ 2016 میں پاکستان کے پہلے نوبل انعام یافتہ سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی منظوری دی گئی تھی اب اس کا نام تبدیل کیا جا رہا ہے۔ قومی اسمبلی میں کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد کا عنوان تھا ’نام تبدیلی شعبۂ فزکس قائداعظم یونیورسٹی‘ اور اس میں کہا گیا ہے کہ طبیعیات کے شعبے کو ابوالفتح عبدالرحمان سے منسوب کیا جائے کیونکہ یہ دنیا میں مسلمانوں کے سب سے بڑے طبیعیات دان تھے۔
سنہ2016 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے جس ادارے کا نام ڈاکٹر عبدالسلام سے منسوب کرنے کی اصولی منظوری دی تھی وہ شعبۂ طبیعیات نہیں بلکہ نیشنل سنٹر فار فزکس تھا اور حقیقت یہی ہے کہ قائداعظم یونیورسٹی کا شعبۂ طبیعیات اور اس کی حدود میں واقع نیشنل سنٹر فار فزکس دو الگ الگ ادارے ہیں۔
سرکاری موقف کے برعکس قائداعظم یونیورسٹی میں شعبہ فزکس سے منسلک ڈاکٹر ہود بھائی نے نام کی تاحال تبدیلی کی وجہ سے احمدیوں کے خلاف پائے جانے والے تعصب کو قرار دیا۔
معاملہ جو بھی ہو۔ ۔ بہر حال ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کو نوبل انعام دلانے والے پہلے شخص تھے۔
پاکستان کےاردو ادیبوں اور شعرا میں دورِ جدید کے شاعرعبیداللہ علیم نے اپنے شعروں سے جلد وہ مقام حاصل کیا جس کے لیے شعرا کو ایک عرصہ لگتا ہے۔ احمدی عقیدہ رکھنے والے شاعر عبیداللہ 12 جون 1941 کو بھوپال میں پیدا ہوئے۔ عبیداللہ نام اور تخلص علیم تھا۔ ان کے والد سیالکوٹ سے نقل مکانی کرکے بھوپال میں آباد ہوگئے تھے۔ اس اعتبار سے ان کی پدری زبان پنجابی اور مادری زبان اردو تھی۔ بچپن سے انھیں اچھے شعر یاد کرنے اور پڑھنے کا شوق تھا۔
؎ انسان ہو کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو
یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا
عبیداللہ تقسیم ہند کے بعد پاکستان آگئے۔ میٹرک کے بعد پوسٹ آفس کے سیونگ بینک میں ڈیڑھ سال تک ملازم رہے۔ پھر تقریباً دوسال تک پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انڈسٹریل اکاؤنٹس میں کام کیا۔
؎ کھا گیا انساں کو آشوب معاش
آگئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
۱۹۵۹ء سے انھوں نے باقاعدگی سے شعر کہنا شروع کیا۔ عبید اللہ علیم نے کراچی سے اردومیں ایم اے کیا۔ گیارہ سال تک کراچی ٹیلی وژن میں پروگرام پروڈیوسر کی حیثیت سے خدمت انجام دیتے رہے۔ ان دنوں انھوں نے موسیقی کے بڑے اچھے اچھے پروگرام بھی پروڈیوس کیے۔ عبید اللہ علیم کی ایک غزل پی ٹی وی کے مشہور پروگرام ’’ترنم‘‘ میں میڈم نور جہاں نے گائی جسے بہت سراہا گیا۔ غزل کا مطلع تھا:
؎ تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ
مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ
بعد میں یہی خوبصورت غزل مہدی حسن نے بھی گائی اور سُروں کے رچاؤ اور مہدی حسن کی آواز کے جادو نے اس غزل کا حسن دوبالا کر دیا تھا۔ عبید اللہ علیم اپنا ماہ نامہ ’’نئی نسلیں‘‘ بھی شائع کرتے رہے۔
؎ ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے
کس سے کرتے جو کوئی عشق دوبارہ کرتے
ساٹھ کے عشرے میں ملک کا دارالخلافہ تو پوٹھوہار منتقل ہو گیا مگر اردو شعر کا سمندر کراچی ہی میں رہ گیا۔ اس جوار بھاٹے میں جون ایلیا، محبوب خزاں اور عبیداللہ علیم جیسی کم یاب مچھلیاں منہ میں آبدار موتی لیے ساحل پر نمودار ہوئیں۔
؎ کل ماتم بے قیمت ہوگا آج ان کی توقیر کرو
دیکھو خون جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانےلوگ
ان کی غزلوں اور نظموں کا مجموعہ ’’چاند، چہرہ، ستارہ، آنکھیں‘‘ ۱۹۷۴ء میں شائع ہوا جس پر آدم جی ادبی انعام ملا۔
؎ کچھ دن تَو بسو مری آنکھوں میں
پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا
فارسی اور عربی سے آزاد تازہ لہجہ، چست زبان میں نازک جذبوں کی تفسیر۔ چاند چہروں اور ستارہ آنکھوں کا شاعر عبیداللہ علیم عقیدے کے اعتبار سے احمدی تھا۔
؎ بولےنہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے
لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات
عبید اللہ علیم کا دوسرا شعری مجموعہ ’’ویراں سرائے کا دیا‘‘۱۹۸۶ء میں چھپا۔ ان کی دیگر تصانیف میں :’’ نگار صبح کی امیدیں‘‘، ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘(کلیات) شامل ہیں۔
؎ عزیز اِتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے
اب اِسقدر بھی نہ چاہو کہ دَم نِکل جائے
کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی۔ شراب اور ریش ایک ساتھ چھوڑ دی۔ کچھ برس بعد دنیا بھی چھوڑ دی۔ ۱۸؍ مئی ۱۹۹۸ء کو کراچی میں انتقال کرگئے۔
؎ ہے یوں بھی زیاں اور یوں بھی زیاں
جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا