لاہور(مانیٹرنگ ڈیسک) لائن ٹرین منصوبہ گذشتہ دور حکومت سے ہی تاخیر کا شکار ہو رہا ہے۔ لیکن اب اورنج لائن ٹرین منصوبہ چلے یا نہ چلے، قرضوں کا میٹر ڈالروں میں چلنا شروع ہو جائے گا۔اگر ڈالر کی قیمت میں استحکام رہا تو حکومت کو یومیہ 6 کروڑ 75 لاکھ روپے کا جُرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ اورنج لائن ٹرین چلے یا نہ چلے لیکن حکومت پر قرضوں کا میٹر ڈالر میں چلنے لگے گا،، منصوبے کی لاگت 2015ء میں ایک کھرب 60 ارب 60 کروڑ روپے تھی، حکومت کو دو سو بار دن کا جُرمانہ چودہ ارب 31 کروڑ روپے ادا کرنا ہو گا۔ڈالر بڑھنے سے 2019ء میں منصوبے کی لاگت میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ صوبائی وزیر بلدیات علیم خان نے بھی آج اورنج لائن ٹرین منصوبے پر ایک دھواں دھار پریس کانفرنس کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ اورنج لائن ٹرین منصوبہ ایک سفید ہاتھی بن چکا ہے اور اگر اب اس منصوبے کو بند بھی کیا جائے تو عوام کے 300 ارب کھنڈر بن جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس ابھی بھی کوئی واضح آپشن موجود نہیں ہے۔ اگر ہم منصوبہ مکمل کریں تو بھی ہمیں مشکلات کا سامنا ہو گا۔ یاد رہے کہ اونج لائنمیٹرو ٹرین منصوبہ گذشتہ دور حکومت کے بڑے منصوبوں میں سے ایک منصوبہ تھا ۔ سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی جانب سے اورنج لائن ٹرین منصوبہ 2015ء میں شروع کیا گیا جسے دو سال کی مدت میں مکمل ہونا تھا،، میگا پراجیکٹ ”اورنج لائن میٹرو ٹرین” کے منصوبہ تکمیل نہ ہونے کی وجہ سے موجودہ حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے جسے نہ تو نگلا جا سکتا ہے اور نہ ہی اُگلا جا سکتا ہے۔