اسلام آباد: نگراں وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ حکومت بینکنگ شعبے کی ترقی کے لیے کوشاں ہے جبکہ اسلامی بینکنگ بھی اس کی ترجیحات میں شامل ہے۔۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق سینیٹ اجلاس میں سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے پیش کردہ قرارداد پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ کچھ سال قبل جب وہ گورنر اسٹیٹ بینک کے عہدے پر تعینات تھیں تو ہم نے اسلامی فنانس کے شعبے کی ترقی کےلیے بھرپور اقدامات کیے تھے۔
ڈاکٹر شمشاد اختر کا مزید کہنا تھا کہ اسلامی بینکنگ کے فروغ کے لیے تقریباً 3.6 ارب ڈالر کے سکوک بانڈ کا اجرا کیا گیا جو اب بھی بین الاقوامی مارکیٹ میں زیر گردش ہیں۔
نگراں وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ سال 2000 میں متعارف کرایا جانے والا اسلامی مالیاتی نظام 14.5 فیصد کی شرح سے کافی بہتر انداز میں فروغ پارہا ہے، انہوں نے بتایا کہ اس وقت ملک میں 5 بینک مکمل طور پر جبکہ 16 بینک متبادل طور پر اسلامی بینکنگ کی سہولیات فراہم کررہے ہیں۔
خیال رہے کہ سینیٹر شبلی فراز کی جانب سے سینیٹ میں قرارداد پیش کی گئی تھی جس میں حکومت پر زور دیا گیا تھا کہ جتنی جلد ممکن ہو سود کے خاتمے کے لیے ضروری اقدامات کیے جائیں اور نئی حکومت کے کم از کم 30 فیصد قرضے شریعت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالیں جائیں۔
اس کے علاوہ قرارداد میں یہ بھی مطالبہ کیا کہ وزارت مذہبی امور کے فنڈز اور حج کے سلسلے میں بین المسالک ہم آہنگی، زکوٰۃ و عشر کو شریعت کے تقاضوں کے تحت کیا جائے۔
اس پر ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھا کہ حکومت کو 30 فیصد قرضے شریعت کے نظام میں منتقل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں لیکن اسلامی بینکنگ کے شعبے میں فوری اضافہ نقصان دہ ہوگا، اس کے لیے ضروری ہے کہ مارکیٹ کو فطری طور پر پھلنے پھولنے دیا جائے۔
سینیٹر شبلی فراز کا کہنا تھا کہ اسلامی بینکنگ نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں ایک مسلم حقیقت ہے اور حکومت کو چاہیے کہ اس شعبے کے لیے فنڈ مختص کیا جائے۔
اس حوالے سے سینیٹر مشتاق احمد کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین میں کہا گیا تھا کہ مالیاتی نظام کو جلد سود سے پاک کردیا جائے گا لیکن 45 سال گزرنے کے باوجود بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔
دوسری جانب سینیٹر رحمٰن ملک نے بتایا کہ سکوک بانڈز بھی سود کی طرز کا قرضہ ہے اور اس کا اسلامی نظام سے کوئی لینا دینا نہیں۔