کراچی: پارلیمنٹ میں اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ کا کہنا ہے کہ ہم پاناما کیس میں حکومت کے خلاف سپریم کورٹ میں نہیں گئے لیکن حکومت نے خود اپنی داڑھی دوسروں کے ہاتھ میں دی اور پھر جو بھی ہوا اچھا ہوا۔
کراچی میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قائد حزب اخلاف خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لئے مشاورت یا مذاکرات میں جذبات میں آنے کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ سنجیدہ گفتگو کے ذریعے اپنے نکتہ نظر پر قائل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ کا شکر ہے کہ اپنے مؤقف کے اظہار کے لئے پاکستان میں پارلیمنٹ موجود ہے۔
خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف سازشیں کی گئیں، ہم پر گالم گلوچ، تنقید اور ہمارے خلاف سازشیں کی گئیں لیکن ہم ہرجگہ ثابت قدم رہے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہے، پوری دنیا نے دیکھا کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں اقتدارکی منتقلی پروقار طریقے سے ہوئی، ایک وزیر اعظم اپنی گاڑی سے جھنڈا اتار کر جارہا تھا تو دوسری جانب نومنتخب پرائم منسٹر جھنڈے سمیت اپنا منصب سنبھالنے آرہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف جب بھی کسی ادارے کے چنگل میں پھنسے تو وہ بہترین کالا سوٹ اور لال ٹائی پہن کر عدالتوں میں چلے جاتے ہیں لیکن اقتدار کی کرسی کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں، ہم کالا سوٹ پہن کر کسی بھی سازش کا حصہ نہیں بنے ہم ہرسازش کے خلاف میدان میں کھڑے رہے اسی وجہ سے موجودہ حکومت نے اپنے اقتدار کے 4 سال پورے کئے۔
اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ہماری کوشش ہے یہ حکومت اپنے 5 سال پورے کرے اسی لئے ہم پاناما کیس میں بھی حکومت کے خلاف سپریم کورٹ نہیں گئے ہم چاہتے تھے کہ تمام مسئلے پارلیمنٹ کے اندر حل کئے جائیں، چاہے اس کے لئے آئین میں تبدیلی کرنی پڑے اور اختیارات پارلیمنٹ کے سپرد کئے جائیں لیکن عدالت میں کیس نہ لے جایا جائے لیکن ہماری توقعات کے برعکس حکومت نے اپنی داڑھی خود دوسروں کے ہاتھ میں دے دی اور پھر جو بھی ہوا وہ اچھا ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ نہ جانے کے فیصلے پر ہم پر دیگر جماعتوں کی جانب سے تنقید بھی کی گئی لیکن ہم اس بات پر مصر رہے کہ پارلیمنٹ ہی پاکستان کا سب سے بڑا پلیٹ فارم ہے فیصلہ یہیں ہونا چاہئے۔
قائد حزب اختلاف نے مزید کہا کہ ہم آج بھی کہتے ہیں کہ حکومت چلنی چاہئے اور اگر ایک دو چہرے تبدیل بھی ہوجائیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن نواز شریف اقتدار کی کرسی چھوڑنے کو تیار نہیں، شخصیات سے ہٹ کر فیصلے کریں گے تو مثبت چیزیں سامنے آئیں گی، ہمارے دور میں بھی جب کہ یوسف رضا گیلانی کا کوئی قصور بھی نہیں تھا لیکن جب وہ گئے توہماری ہی پارٹی کے راجہ پرویز اشرف نے وزیراعظم کا منصب سنبھال لیا، چہرے بدلنے سے ادارہ وہی رہا اور جمہوریت بھی رواں دواں رہی اور اگر ہم ضد کرتے، عدلیہ کے سامنے کھڑے ہوجاتے اور ججوں پر تنقید کرتے، انہیں ماضی کی طرح جوتے مارتے اور انہیں بھگا دیتے تو اس کا نتیجہ یہی نکلتا میرے عزیز ہم وطنوں، اور سب ختم لیکن ہم نے لڑائی نہیں کی۔
خورشید شاہ نے کہا اب بھی وقت ہے آج 70 سال کے بعد ہی صحیح لیکن ہمیں اپنے بچوں کو ایک بہتر پاکستان بنا کر دینے کی ضرورت ہے، میں سب سے کہتا ہوں کہ لڑائیوں کو پس پشت ڈال کر پاکستان پر بھی دھیان دیں ہمارا ملک اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں سے اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں بچا۔ میڈیا کو چاہئے کہ وہ سیاسی رہنماؤں کو ٹاک شوز میں بٹھا کر لڑائی کروانے کے بجائے مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل طلب کرے لیکن یہاں لوگ بھی گالم گلوچ اور زور سے بولنے پر خوش ہوتے ہیں ایک رہنما خود کو شیر اور دوسرا خود کو سونامی کہتا ہے پتہ نہیں یہ کون سی تباہی لے کر آرہے ہیں۔