پشاور: وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے (فاٹا) سے متعلق اصلاحات کا بل طویل عرصے سے زیر التواء ہے تاہم باخبر ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ حکومت نے اپنے 2 سیاسی اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود قبائلی علاقوں کو خبیرپختونخوا میں ضم کرنے کے لیے مذکورہ بل کو قومی اسمبلی میں بروز بدھ (23 مئی) کو پیش کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
انہوں نے بتایا کہ فاٹا اصلاحات بل گزشتہ جمعے کو اسمبلی میں پیش کیا جانا تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کے اعتراض کے پیش نظر یہ فیصلہ موخر کردیا گیا۔ اپوزیشن جماعتوں کا موقف تھا کہ بل میں آئین کے تمام ضروری آرٹیکل شامل کیے جائیں ناکہ محض ضم کرنے کے لیے ادھورا بل پیش کیا جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ ‘23 مئی کو پیش کیا جانے والا فاٹا اصلاحات بل جامع اور مربوط ہوگا’۔
دوسری جانب وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانون و انصاف ظفر اللہ کی زیر صدارت اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے اہم ارکان نے بھی شرکت کی اور اتفاق کیا کہ فاٹا کو خبیر پختونخوا میں ضم کرنے کا عمل 5 سالہ مدتی پلان پر نہیں بلکہ محض ایک سال میں مکمل ہونا چاہیے۔ واضح رہے کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا تھا کہ فاٹا کے حلقوں پر مشتمل خیبر پختونخوا اسمبلی میں اکتوبر 2019 میں انتخابات ہوں گے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ اجلاس میں فاٹا کو ضم کرنے پر مکمل اتفاق رائے سامنے آیا اور اُمید ظاہر کی گئی کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) ایک سال کے اندر فاٹا میں نئی حلقہ بندیوں پر اپنا کام مکمل کرلے گا۔ اس ضمن میں خیال رہے کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے ارکان نے اجلاس میں شرکت سے گریز کیا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حکومت نے فیصلہ کیا کہ 2 سیاسی اتحادیوں کے بغیر ہی فاٹا اصلاحات بل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا تاہم دونوں مخالف پارٹیوں کی جانب سے حکومت پر زیادہ دباؤ نہیں ڈالا جا سکے گا۔ خیال رہے کہ حکومت کی فاٹا اصلاحات کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کو منانے میں ناکامی کی وجہ سے قومی اسمبلی میں اس کا ڈرافٹ کئی ماہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
یاد رہے کہ کچھ روز قبل وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی اس حوالے سے جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ سے ملاقات کی تھی تاہم اس ملاقات کے بعد بھی حکومت مولانا فضل الرحمٰن کا موقف تبدیل کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ فاٹا کے اراکان پارلیمنٹ، قبائلی اور خیبرپختونخوا کے اعلیٰ حکام کے مابین 21 مئی کو طے شدہ اجلاس میں عبوری جوڈیشل نظام تشکیل دینے پر غور ہوگا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی نے 12 جنوری کو سپریم کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ کا دائرہ کار فاٹا تک بڑھنے کی منظور دے دی تھی۔