گذشتہ دنوں ملتان میں حکومت کی گاڑی اسی کی تعمیرکردہ سڑک میں پڑے ایک گڑھے میں جا گری اور اس پر افسوس کہ حکومتی گاڑی کئی گھنٹے ایسے ہی گری پڑی رہی۔ اسے کوئی اٹھانے ہی نہ آیا۔ شہری آتے جاتے ایک گہرے گڑھے میں گری حکومتی گاڑی کو دیکھتے رہے۔ کچھ نے سیلفیاں بنائیں۔ کچھ نے صرف بس کی تصویرسوشل میڈیا پر ڈال کر اچھا خاصہ تبصرہ کیا۔ کئی تو حکومت کی کارکردگی پر لعن طن کرکے ہی گزر گئے۔ دو چار نے افسوس کا بھی اظہار کیا ہوگا اور ایک آدھ نے اظہار ہمدردی بھی دکھائی ہوگی۔ لوگوں کا تو پتہ نہیں مگر اس واقعے سے مجھے ایک سبق ضرور مل گیا وہ یہ کہ حکومت کی گاڑی کسی گہرے گڑھے میں گر جائے یا اندھے کنویں میں تو اس کو نکالنے کیلئے حکومتی اداروں کی مدد ہی کی ضرورت پڑتی ہے کسی خلائی مخلوق کی نہیں اور یہ جو عوام ہیں یہ صرف دیکھ سکتے ہیں یا باتیں بنا سکتے ہیں۔
خیر فیڈر بس کو نکالنے کیلئے ریسکیو نے کوشش کی لیکن بات نہ بنی تو ایک کرین منگوائی گئی جس نے حکومتی گاڑی کو باہر نکال لیا۔ عوام کا تو پتہ نہیں لیکن میں نے یہ سارا منظر لائیو دیکھا اور مجھے اندازہ ہوگیا کہ حکومت کی گاڑی جب بھی پھنسے گی عوام صرف دیکھے گی دھکا تک نہیں لگائے گی ہاں البتہ اس آنکھوں دیکھے حال کا دوسرے لوگوں کو قصہ ضرور سنائےگی۔
بچپن میں ہم لوگ بڑی کہانیاں گڑھتے تھے۔ نانی دادی کی سنائی کہانیوں میں اکثر جن، بھوت، دیوتا اور آسیب وغیرہ کا ذکر ہوتا تھا۔ اس لئے ہم بھی یونہی کہہ دیا کرتے تھے کہ فلاں گھر کی چھت پر جن ہے اور فلاں درخت پر ایک چڑیل رہتی ہے۔ لیکن آج کل بچے بڑے ایڈوانس ہیں وہ جن بھوت کو قبول ہی نہیں کرتے انہیں بس خلائی مخلوق، اڑن تشتری اور سیاروں میں دلچسپی ہے۔ اب جب کہ بچوں کے کارٹون تک ایڈوانس ہوچکے ہیں۔ شاید ہمارے ملک میں الفاظ اور استعارے بھی جدید طرز پر استعمال ہونے لگے ہیں۔ اسی لئے کسی نے ایویں ہی شوشہ چھوڑ دیا ہے کہ ایک خلائی مخلوق ہے۔ خلائی مخلوق کسے کہا جا رہا ہے اور کیوں کہا جا رہا ہے یہ میں اور آپ کیا بچہ بچہ جانتا ہے۔ حکومت کی گاڑی جب بھی کسی گہرے اور تاریک گڈھے میں پھنسی ہے اسی خلائی مخلوق نے ہی باہر نکالا ہے۔ کبھی عوام کی مدد کے ساتھ تو کبھی عوام کی مدد کے بغیر۔
حکومتی گاڑی کو بریک لگانی ہو یا الٹا ہی کردینا ہو یہ کام بھی خلائی مخلوق کا ہی ہے۔ حکومتی گاڑی کو فل ریس کے ساتھ چوتھے گیئرمیں چلانا ہو یا کوئی نئی گاڑی لانچ کرنی ہو یہ کام بھی چٹکیوں میں ہوجاتا ہے۔ اب جب موجودہ حکومتی گاڑی دھکا اسٹارٹ بن چکی ہے، ایسے میں حکومت اس عوام کی طرف دیکھ رہی ہے جس کا اس نے شاید کبھی سوچا ہی نہیں۔
ملتان میں ہونے والے اس واقعے سے ایک دن پہلے نوازشریف اسی شہر میں ایک جلسہ عام سے خطاب میں بڑھک مار رہےتھے کہ عمران خان کرایہ میں دوں گا، دس بندوں کو بھیجو اور دیکھو ملتان میں پشاور سے کہیں زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجاب حکومت نے باقی تمام صوبوں سے بڑھ کر کام کیا ہے اور ترقی بھی سب سے زیادہ کی ہے اور اس ترقی میں سب سے زیادہ سڑکوں اور انفرا اسٹرکچر پر توجہ دی گئی ہے لیکن ملتان میں سڑک میں پڑنے والے گڑھے نے حکومتی کارکردگی اور کاموں کا پول کھول دیا ہے۔ سڑکوں کی تعمیر آگے ہی اس حکومت کے گلے پڑی ہے۔ اگر سڑکوں کا یہ حال ہونا شروع ہوگیا تو یہی سڑکیں کہیں گلے کا پھندا ہی نہ بن جائیں۔
بھلا ہوفیڈر بس کا جو گڑھے میں گرگئی جس نے کم از کم یہ بات تو واضح کردی کہ حکومت کی گاڑی کو نکالنے کیلئے اداروں کی مدد ناگزیر ہوتی ہے لیکن یہ بات شاید خود حکومت ہی کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ حکمران جماعت کے قائد اداروں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ گئے ہیں اور اب تو شاید وہ پاکستان کی سالمیت کو بھی نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔ الزام کا جواب الزام سے دیں مگر یہ سوچ کر کہ آپ کا مقابلہ الیکشن میں سیاسی رہنمائوں سے ہے، کسی ادارے سے بالکل نہیں۔ آپ ووٹ لینے کےلئے نعرہ تو لگا سکتے ہو لیکن حملہ نہیں کرسکتے کیوں کہ خلائی مخلوق جیسی بھی ہو بچوں بڑوں اور بوڑھوں سب کی ہردلعزیز مخلوق ہے اور ویسے بھی آخر کسی بھی پھنسی ہوئی گاڑی کو وہ ہی تو نکالتی ہے۔
اگر آپ کی یادداشت اچھی ہے تو ذرا ایک نظر ماضی میں ڈال کردیکھ لیں۔ ایک نہیں کئی بار آپ کی گاڑی کو سہارا دیا گیا لیکن اس بار آپ نے ڈرائیونگ سیٹ ایسی سنبھالی کہ کئی ریڈ سگنل توڑ دیے جو کہ آپ کو بالکل نہیں توڑنے چاہئیے تھے۔ اگر آپ کو تین بار ڈرائیونگ سیٹ دی گئی اس کے باوجود آپ کو یہ اندازہ نہیں کہ کس کراسنگ لائن پر رکنا ہے اور کس پر دھیما ہونا ہے۔ اگر آپ نے اب بھی یہ نہیں سیکھا تو آپ سمجھ لیں کہ آپ کی چھٹی اور لائن کراس کرنے کے جرم میں آپ سیدھا اندر جائیں گے۔