counter easy hit

فتح مکہ…. عالمی امن کا پیغام

Fathe Makka

Fathe Makka

عزیز بلگامی ۔۔۔۔

دنیا جانتی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ و سلم کی کوئی جنگ اِقدامی جنگ کبھی نہیں رہی ۔ اِس کے برعکس اُن کی جنگیں خالصتاً مدافعتی جنگیں تھیں۔ یہ جنگ بھی اقدامی نہ ہوکر اپنی روح میں گزشتہ جنگوں کی طرح مدافعتی ہی ثابت ہوئی۔ ابوسفیان کو بھی اس حقیقت کا اندازہ ہوچکا تھا۔ ان خطرات کے باوجود مکہ والے قتل کے مجرموں کو سزا دینے یا حضور کے مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم آنحضورصلی اللہ علیہ و سلم نے باقاعدہ مکہ والوں کو اس جنگ کی پیشگی خبر دے کر جنگ کے آداب کا پاس و لحاظ رکھا۔صحابہؓ کوجنگ کی تیاری کی ہدایات جاری فرما ئیں۔ یہ بات اہلِ مکہ کے لئے فکر مندی کا باعث تھی کہ عرب قبائل کی مدد کے بغیر وہ مقابلہ کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ پھرجنگ احزاب میں پورے جزیرے کے سورماو¿ں کی جو کچھ درگت بن چکی تھی وہ سب کے سامنے تھی۔ اب انکے لئے ایسا کوئی آپشن نہیں رہ گیا تھا کہ جنگ کے مورچے پر رسول صلی اللہ علیہ و سلم اور اصحاب رسول کا سامنا بھی کرسکیں۔چنانچہ وہ حضور اور صحابہؓ کے مقابلے کی ہمت جٹا نے سے قاصر رہے۔یہ تھا وہ پس منظر جس میں کفار کا حقیقت سے فرار ناممکن ہوگیا۔ اُنہوں نے اِسی میں اپنی خیریت سمجھی کہ پہاڑوں پر نکل جائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا، فریقِ مقابل کے افراد نے میدان اور شہر ہی خالی کر دیا،اور اہلِ ایمان کے حصہ میں اللہ نے کسی کشت وخون کے بغیرفتح مقدر فرمادی۔اللہ نے ”فتحِ مکہ“ کاعظیم تحفہ ان کے دامن میں ڈال دیا۔ اِس طرح یہ جنگ بجا طور پر ”جنگ مکہ“ نہ ہوکر” فتح مکہ“ ثابت ہوئی۔جب مکہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور صحابہ کاداخلہ ہو رہا تھا تو دنیا نے یہ منظربھی دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنی اونٹنی قصویٰ پراِس طرح تشریف فرما تھے کہ آپ کا چہرہ ¿مبارک اونٹنی کی پیٹھ سے جا لگا تھا اور صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ اپنے رب کا شکر بجا لانے میں مصروف تھے۔اِس موقع پر آپ کے لبوں پر سورہ¿ بنی اِسرائیل(۱۷) کی یہ آیت جاری تھی: (ترجمہ)….”اور اعلان فرما دیجیے کہ حق آگیا اور باطل شکست کھا گیا، بے شک باطل ہوتا ہی ہے مٹ جانے کے لیے….“(۸۱)۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیت اللہ کاطواف کیا اور عام معافی کا اعلان فرما دیا۔آپ کے اعلان کے تین ایمان افروز اجزاءاِن الفاظ پر مشتمل تھے: اولاً، جو شخص اپنے گھر کے اندر ہوگا اُس سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا،ثانیاً، جو شخص سامنے ہوگا اس کا تعاقب نہیں کیا جائے گااورثالثاً، جو شخص فلاں فلاں قریش کے سردار کے گھر میں پناہ گزیںہوگا اس پر بھی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی۔اہلِ مکہ پہاڑوں کی اوٹ سے تماشہ ہائے لطف کرم دیکھ کر نہ جانے اپنے قلب و ذہن میں کیسے کیسے طوفانوں کو برپا ہوتے محسوس کر رہے ہوں گے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے لطف و کرم کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتے رہے۔اِن میںسے کچھ لوگوں نے محسوس کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں وفد کی شکل میں حاضر ہوا جائے۔چنانچہ سرکردہ افراد پر مشتمل ایک وفد آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ سلم نے اِن سے دریافت فرمایا:” آج کے دن تم مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو؟“ ۔ اُنہوں نے کہا:” آپ عبدالمطلب کے پوتے ہیں، عبداللہ کے بیٹے ہیں، آپ سے ہم اچھے سلوک کی ہی توقع رکھتے ہیں۔“ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت یوسف علیہ السلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے سورئہ یوسف (۱۲)کی یہ آیت پڑھی….(ترجمہ) ….” (یوسف ؑ نے) کہا کہ آج کے دن تم پر کچھ عتاب(یا ملامت) نہیں ،اللہ تمہیں معاف کرے، بیشک اللہ تو ہے ہی ارحم الراحمین۔ “(۹۲)۔ اعدائے مکہ جو قریب ہی تھے، رحمت للعالمین کے لطف و کرم کا وہ بھی مشاہدہ کر رہے تھے۔

Hazrat Muhammad PBUH

Hazrat Muhammad PBUH

ہجرت کے بعد صحابہ ؓ کرام کی جائیدادوں، بلکہ خود آنحضرت کے ذاتی مکان پر بھی کفار قابض تھے۔پسپا کفار کو یہی گمان گزرا کہ کعبہ کو بتوں سے پاک کرنے کے بعداب آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے ذاتی مکان کی جانب متوجہ ہوں گے۔خود صحابہؓ بھی اِسی بات کے منتظر تھے کہ شاید ایسا ہو۔ لیکن قربان جائیے قائدِ فتح مکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم پرکہ ، اُنہوں نے اپنے ہی مکان کی بازیافت کے سلسلے میں کسی کارروائی کی کوئی ضرورت محسوس نہیں فرمائی۔جاں نثار صحابہؓ نے بھی پیروی¿ رسول کو مقدم جانا اور اُنہوں نے بھی یہی کیا۔اُدھرمکہ کی پہاڑیوں میں پناہ گزیں افراد جو ایثار و قربانی، جاں نثاری و فدا کاری کے یہ ایمان افروز مناظر ملاحظہ کر رہے تھے، پہاڑوں سے احساسِ شکست خوردگی کے ایک بھاری احساس کے ساتھ،نیچے اُتر آئے۔ اُنہیں یقین ہو گیا تھا کہ مکہ پر ایمان والوں کا قبضہ یقینی ہے ۔وہ اپنے دلوں میں اِس حقیقت کے معترف بھی ہو گیے تھے کہ اہلِ ایمان اِس صورتحال کے سبب مکہ پر قبضے کے جائز طور پر حقدار ہیں۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے اِس فرمان پردُنیا حیران تھی کہ اب کوئی فرد اپنے ایمان کی خاطر مدینہ ہجرت نہیں کرے گا(بلکہ امن کا گہوارہ بننے والے مکہ ہی میںبے خوف و خطر مومن رہے گا)۔ دراصل ساری دنیا کو اِس فرمان کے ذریعہ یہ پیغام جارہا تھا کہ Settledافراد کا نقل مکانی ….چاہے وہ کسی بھی وجہ سے ہو….شہری آبادیوں کے مفاد میں نہیں ہوتی ۔یہی تو وہ فرمان تھا جس کے ذریعہ نقل مکانی سے شہروں کے سوشل فائبر Fibreکے ڈسٹرب کرنے سے گریز کی اہمیت کا دنیا کو اندازہ ہوا۔اپنے پیغام کی عملی تعبیریں بھی آنحضرت نے عوام کے سامنے رکھیں۔مثلاً بیت اللہ کی چابی کو آپ نے اس کے مستحق Care Takerکے پاس ہی رہنے دیا۔قارئیں کی دلچسپی کے لیے جو گفتگو ہوئی ، اُس کی ایک جھلک حاضر ہے: اِس موقع پر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے کنجی بردارِ کعبہ کو یا ددلایا :”تمہیں یاد ہے کہ ہجرت سے پہلے ایک بارمیں نے یہ چابی تم سے مانگی تھی اور تم نے جواباً کہا تھا کہ :” ….(اے محمد)کیا تم سمجھتے ہو کہ اہلِ قریش اتنے کمزور ہوگئے ہیںکہ خانہ کعبہ کی کنجی تم جیسے لوگوں کے حوالے کرنے پر مجبور ہو جائے، جو اپنے آبائی دین کو تج چکے ہیں….!“ میں نے کہا تھا:” اُس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب یہ چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی؟ ….!“ اور تم نے انگشت بہ دنداں ہوکرپوچھا تھا :” کیا قریش اِتنے ذلیل ہونے والے ہیں کہ یہ کنجی تمہارے ہاتھوں میںدیکھنے کی نوبت آجائے گی؟“۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا تھا:” نہیں:(کسی کی ذِلّت کا سوال نہیں ہوگا، بلکہ)جس دن یہ کنجی میرے ہاتھ میں ہوگی، اُس دن قریش عزت پاچکے ہونگے۔ “غور کرنے کا مقام ہے کہ یہ بات اُس وقت کہی گئی تھی جب فریق ِثانی ابھی ایمان نہیں لایا ہوا تھا۔اِس کا صاف مطلب یہ تھا کہ”فتح“ لازماً مغرور بناکر پیش کرنے کا نام نہیں۔بلکہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ جنگی فتوحات سے یہ لازم نہیں آتا کہ فاتحین سارے ہی اِنتظامی اُمور مفتوح اقوام سے لازماً چھین ہی لیں۔ ” فتحِ مکہ“کے موقع پر سابق کنجی بردارکو Disturbنہ کرکے حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک عظیم مثال پیش کی اور” فتح یابی “ پر شکر ِ خداوندی کے لیے کسی طرح کے انتظامی امور کے ذمہ دار کوبدلنا ضروری نہیں سمجھا۔ دنیا نے اِس سے یہ پیغام بھی لیا کہ مفتوح قوموں کی وفاداری پر بلا وجہ شک کرنے کے بجائے،یہ سوچنا ضروری ہے کہ ایسے مواقع پر اِن کی وفاداریاں کس طرح حاصل کی جانی چاہئیں۔ بعض صحابہ ؓ سوچ رہے تھے کہ مکہ میں چونکہ ہماری جائیدادو مکانات ہیںاور یہ ہمارا ہی وطن ہے، اِس لئے یہاں بودوباش اختیارکرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ لیکن وہ مزاج شناسِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بھی تھے۔ وہ جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی رضا کیا ہے۔ عظیم فتح مکہ نے دنیا کو یہ پیغام بھی دیا کہ فتح مندی ، نشے میں چور ہونے کا نام نہیں، نہ کھیل تماشوں کا۔جس طرح جدید دور کی بے ہنگم موسیقی،آتش بازی، ناچ گانوں کے اِنعقاد سے فتح کے جشن منائے جاتے ہیں،ایسا جشن نہیں، بلکہ فتح مکہ نے دنیا کو بتا دیا کہ فتح کا جشن کس طرح منایا جاتا ہے۔ افسوس کہ دنیا نے اس سبق کو بھلا دیا،یا مسلسل بھولتی جارہی ہے ۔ہم عاشقانِ رسول نے توصدیوں پہلے ہی اِس سبق کو بھلا دیا اورآج تو،ہم جہالت کی اِنتہا پر ہیں۔مثلاً،معمولی کرکٹ کی فتح کو ہم ہضم نہیں کر پاتے،موسیقی، کھیل تماشے، آتش بازی، بے ہنگم رقص و سرور اور نہ جانے کیا کچھ کرتے پھرتے ہیں، اور پھر بھی عاشقِ رسول ہو نے کا دعویٰ جو ں کا توں برقرار رہتا ہے۔

Allah

Allah

جس دین میں کہا گیا ہو، کہ اللہ کی نصرت یا فتح آجائے ، یہاں تک کہ لوگ اگر جوق درجوق لوگ اللہ کے دین کے ہم نوا بننے لگیں اور تفاخر کے عوامل کی کارفرمائی ہونے لگے، تو ایسے موقع پر بھی رب تعالےٰ کی تسبیح کی تاکید کی گئی۔ فتوحات کے موقع پر تسبیح، استغفار اورمعافی کی تاکید کی گئی ، توبہ اور اپنے رب کی طرف پلٹنے کا حکم دیا گیا ۔سورئہ النصر(۱۱۰) اِسی حقیقت پر دلالت کرتی ہے:Êِذَا جَائَ نَص±رُ اللّٰہِ وَال±فَت±حُ….وَرَا¿َ ی±±تَ النَّاسَ یَد±خُلُو±نَ فِی± دِی±نِ اللّٰہِ ا¿َف±وَاجًا….فَسَبِّح± بِحَم±دِ رَبِّکَ وَاس±تَغ±فِر±ہُ Êِنَّہُ کَانَ تَوَّابًا ….”جب اللہ کی نصرت اور فتح آ جائے …. اور تم لوگوں کو اللہ کے دین میں جوق در جوق آتا دیکھو….تو اپنے رب کی تسبیح میں مصروف ہو جاو¿، حمد(و ثنا) کے ساتھ، اور اس سے مغفرت کی دعا مانگو ، بیشک وہ بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا ہے۔“ (۱تا۳)۔قیامت تک پیدا ہونے والے اِنسانوں کو یہ سبق دیا گیا کہ، فاتح” امانت دارانِ کتاب اللہ افواج“ کا مفتوح اقوام کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے۔دل خوش کن نعروں اور روایتی جلسے جلوسوں کے بجائے،بتایاگیا کہ عملاًایک ایسا معاشرہ برپا ہو جہاںلینے سے زیادہ دینے کا اور خالص یک طرفہ طو ر پردیتے رہنے کا نظام جاری و ساری ہو۔اِ س سے پہلے کہ اپنے حقوق کا طلب گار اپنے حقوق کی طلبگاری کی کوئی مہم چلائے ، اِسکے حقوق ادا کر دئے جائیں۔جنگوں میں فتح یابی کے بعد فاتح افواج کے روبرو مفتوحین سر جھکائے کھڑے ہوں تو اِن کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے۔ امن و امان کے ماحول میں ، اِنسانی جانوں کی ارزانی کا جب ایک عام Potential موجود ہو توخون کا ایک قطرہ بہائے بغیر فتح کو کس طرح ڈائجسٹ کیا جائے اور فاتحین کے جوشیلے عناصر کی جانب سے مفتوحین پر کسی متوقع اِنتقامی حملے سے کس طرح بچایا جائے اور کس طرح اِنسانی جان کے تحفظ کی ضمانت مل جائے،اعلی اخلاق اور عام معافی کے نقوش کس طرح ثبت کئے جائیں،جن کے دھندلے پڑنے کا قیامت تک کوئی امکان باقی نہ رہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم میدانِ جنگ میں بھی مینارِ رحمت دکھائی دیتے ہیں،ساری اِنسانیت کےلئے۔