نارووال: معراج مصطفےٰ ﷺ کمال نبوی ﷺ کی بلند مثال ہے ۔اس رات طالب و مطلوب،محب و محبوب اور مابین بندہ و خدا عظیم راز کی باتیں ہوئی ۔عنایات ربی کے در کھلے ۔عقل انسانی سے ماوراءمعجزہ¿ معراج عروجِ انسانیت پر دلیل قطعی ہے ۔ اس رات نبی اکرم ﷺ نے تمام انبیاءکرام کی امامت فرما کر سب پر فضیلت کی بلند مثال دی ۔مشاہداتِ معراج جہاں نیکوں کی جزاﺅں کی خوشخبری دیتا ہے وہاں گناہگاروں کو عذابات سے روشناس بھی کرواتا ہے۔ لامکان پر گناہ گاروں کی بخشش کے لئے بارگاہِ خدا میں التجا ئیں کر کے شافعی¿ محشر حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ نے محبت اُمت پر مہر ثبت فرما ئی ۔جشن معراج النبی ﷺ ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ تاریخ انسانیت کے نشیب و فراز اور نبی کریم ﷺ کا سب انبیاءکرام سے زیادہ قربتِ الہٰی پر بھی بین ثبوت ہے ۔ آج کے پر فتن دور میں ہمیں کمالات نبوی ﷺ بیان کر کے،سنت نبوی ﷺ اپنا کر اور اپنی فکروں کو نظریات محمدی ﷺ سے سجا کر ملتِ اسلامیہ کو عوج ثریا پر پہنچانا ہے ۔ سیاست دان سیاسی فرقہ بندی اور مذہبی ذمہ داران فروعی اختلافات دور کر کے حامیان اسلام کو ایک قوم کی حیثیت سے ایک خدا، ایک رسول ﷺ اور ایک قرآن پر متفق کریں تاکہ اغیار مغلوب ہوں ۔ان خیالات کا اظہار مرکزی ناظم اعلیٰ تحریک اویسیہ پاکستان علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال نے مرکز اویسیاں جامعہ اویسیہ کنز الایمان محلہ رسول نگر نارووال میںتحریک اویسیہ پاکستان ضلع نارووال کے زیر اہتمام منعقدہ 17ویں ماہانہ اجتماع اویسیاں بسلسلہ جشن معراج مصطفےٰ ﷺ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔اس موقعہ پر خطاب کرتے ہوئے پیر سید افتخار حسین شاہ کشمیر والے آف قلعہ احمد آباد ،چوہدری محمد یعقوب اویسی ایڈووکیٹ صدر تحریک اویسیہ پاکستان ضلع نارووال ، قاری محمد ارشد اویسی ناظم ،حافظ محمد عرفان اسلام اویسی صدر بزم رضائے محمد ﷺ ضلع نارووال ،مولانا محمد علی رضا اویسی آف دیپوکے نے کہا کہ معرا ج النبی ﷺ ایسا اعجاز نبوی ﷺ ہے کہ جس سے صدیق و زندیق ،عاشق و کافر اور ابو بکر و ابو جہل کا فرق واضح ہوتا ہے ۔معراج مصطفےٰ ﷺ سے پروازِ عبدیت کا اظہار ہوا ۔ آج بھی اگر انسان حقیقی عبدیت سے روشناس ہو کر لذتِ معراج حاصل کرنا چاہتا ہے تو نماز کی پابندی کرے ۔ شب معراج انعامات خدا کی بارش نے امت محمدیہ ﷺ کو سر بلند کیا ۔اس رات نماز جیسے عظیم تحفے نے بندہ اور خدا میں ملاقات کا سب قائم کیا ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا میری معراج کہ میں لامکاں تک پہنچا اور بندہ¿ مومن کی معراج نماز میں ہے ۔آج فرقہ بندی کے خاتمہ کے لئے معجزہ¿ معراج کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔اس موقعہ پرصاحبزادہ محمد عاصم بشیر اویسی،محمد شہزاد اویسی،محمد سجاد اویسی، صوفی شوکت علی اویسی، صوفی محمد رمضان اویسی صدر اویسیہ فورس نارووال ، صوفی محمد منیر اویسی ، ملک شمشیر علی رانجھا اور دیگر نے بھی خطاب و ہدیہ نعت پیش کیا ۔
حلال روزی: اکل حلال اسلامی ضابطہ حیات کی بنیاد ہے اور کسب معاش اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے کیونکہ کسی کا بھی کسب معاش کے بغیر چارہ نہیں ۔یہ دنیا دارالمحنت ہے ۔ محنت سے کما کر اپنا اور اپنے اہل وعیال کا پیٹ پالنا فرائض میں سے ہے کیونکہ حلال روزی سے اپنے آپ کو خود کفیل کرنا اور اپنے بچوں کو دوسروں کی محتاجی سے بچانا سب سے بڑی عبادت ہے ۔بلکہ اہل تقویٰ کے نزدیک حلال روزی جزو ایمان ہے ۔خصوصاً صراط مستقیم کے مسافروں اور اللہ کے محبوب نبی رسول پاک ﷺ کے امتیوں کے لئے مقام فخر ہے کہ اپنے ہاتھ سے کما کر کھائیں ۔ اسلامی حدود کے مطابق رزق کمانا انسان کو دین و دنیا میں سرخرو کرتا ہے۔ کسب حلال کے باعث دنیا میں عزت ملتی ہے اور آخرت میں نجات ملے گی جنت کا حق دار ٹھہرے گا ۔اس لئے اللہ کے بندوںکو اس سعادت سے غافل نہیں ہونا چاہےے اور نہ ہی دنیاداری کا غلام بن کر کسب معاش میں اتنا محو ہو نا چاہےے کہ آخرت کو بھول جائے جو تباہی اور ہلاکت کا باعث بنے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ تیری زندگی کے شب و روز روزگار ہی کی نذر ہو جائیں اور کسب معاش کی زنجیر یں لے ڈو بیں اور روز محشردامن اعمال صالح اور عشق رسولﷺ سے خالی ہو مگر اس کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ فکر آخرت کی لگن میں کسب معاش سے بے نیاز نہ ہو ۔کیونکہ کسب معاش کی بے نیازی کہیں ظاہری کردار اور وقار پر دھبہ نہ بن جائے گو اللہ کی راہ میں کسب معاش سے بے نیاز ہونا پڑتا ہے کیونکہ وصل حق کی منزل میں دوئی کا نام نہیں اور دنیاوی معاش کی دھندوں سے دوئی مٹتی نہیں ۔مگر دوئی مٹانے والے لوگ عظیم المرتب اور خدا کے قریب دوست اور عاشق رسول ﷺتو ضرور ہوتے ہیں مگر دنیادار ان کی ظاہر یت پر طعنہ زن رہتے ہیں۔ اس لئے روزی کمانے کے سلسلہ میں اعتدال کی راہ اختیار کر کے شریعت کو مضبوطی سے تھامے رکھنا چاہئےے ۔میانہ روی سے کسب معاش کر کے من کی دنیا کو بھی یادِ الہٰی سے آباد رکھنا چاہےے ۔لہٰذا اپنے ظاہر کو گل و عنبر کی طرح آراستہ کر کے اور باطن کو عشق رسولﷺ سے مالا مال کر کے کسب حلال کو وسیلہ نجات بنالو ۔یوں من اور تن حال و قال ظاہر و باطن درست کر لو اور دین و دنیا میں اطاعت الہٰی سے سرفراز رہو۔
رزق حلال کمانے والوں کے لئے ۔اللہ اپنی رحمت کے خزانے کھول دیتا ہے دنیا میں باعزت کرتا ہے آخرت میں بلند درجات سے نوازتا مگر کسب معاش میں حدود اللہ کا ہمیشہ لحاظ رکھنا اور رضائے الہٰی کے باعث حلال روزی کا طلب گار بننا ضروری ہے ۔
روزی فضل خداوندی ہے اس لئے اللہ کے فضل کو تلاش کرنا عین سعادت مندی ہے۔ مگر اللہ کو چھوڑ کر مال و دولت کے حصول کا غلام بن جانا سب سے بڑی بد قسمتی اور ذلت ہے ۔لہٰذا حلال روزی کمانا انسان پر فرض عین ہے مگر ایسے درویش اور فقرا جو حالت جذب میں ہوں یا فنافی اللہ کے مقام پر ہوں وہ اس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ انہیں اللہ خود رزق پہنچاتا ہے ۔یا اللہ کوئی ان کا ایسا وسیلہ بنادیتا ہے جس سے و ہ دنیا وی دھندوں سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ انسانی معیشت فضل خداوندی کی مرہون منت ہے ۔کیونکہ معاش کے تمام ذرائع جن سے کسب حلال میسر آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے پیدا کر دہ ہیں۔ زمین کے چھپے ہوئے معدنی خزانے یعنی تیل کوئلہ لوہا چاندی سونا اور لاتعداد عناصر جن سے انسانی زندگی مستفید ہوتی ہے اللہ کے پیدا کردہ ہیں۔ خشکی تری سمندر اور اس کے نادرجو اہرات اللہ ہی کی تخلیق ہیں ۔سورج کی گرمی لہلاتی ہوئی نباتات بہتے ہوئے دریا چھما چھم برستی ہوئی بارش جس سے انسانی کھیتیاں سیراب ہوتی ہیں پہاڑوں کے چھپے ہوئے نادرخزانے گویا کہ کائنات کی ہر چیز جس سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے سب کے سب اللہ ہی کے پیدا کردہ ہیں اور پھر اس نظام کائنات کو اس طرح اللہ نے مربوط کیا ہے کہ جس سے انسان فائدہ اٹھا ئے اور پھر حضرت انسان کو عقل دی ہے تاکہ اس سے ارض و سما کی اشیاءکو اپنے استعمال میں لا سکے۔
ھو الذی خلق لکم مافی الارض جمیعا۔”اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے زمین میں سب کچھ پیدا کیا ہے ۔“(البقرہ 29)
اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ زمین کی سطح کے اوپر یا زمین کے اندر جتنے بھی خزانے ہیں جن سے انسان اپنے لئے روزی پیدا کر سکتا ہے وہ سب اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے ہیں اور انسان کے لئے بنائے ہیں ۔
اللّٰہ الذی سخر لکم البحر لتجری الفلک فیہ بامرہ ولتبتغو ا من فضلہ و لعلکم تشکرون۔”اور وہ ہے جس نے سمندر کو تمہارے لئے مسخر کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو۔“(پارہ 25الجاثیہ12)
ارض و سما میں مختلف اشیاءکا تخلیق کرنا اور مادی اسباب کا پیدا کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ نے رزق پھیلادیا ہے جسے محنت سے تصرف میں لانا انسان کی کوشش پر چھوڑ دیا گیا ہے اس سے پتہ چلا حلال روزی کے لئے جدو جہد کرنا انسان کے لئے لازم ٹھہرا ہے ۔ایک مقام پر ارشاد بار ی تعالیٰ ہے کہ : فاذا قضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللّٰہ واذکرو ا اللّٰہ کثیرا لعلکم تفلحونo”پھر جب نماز