اسلام آ باد۔: پی آئی اے کے حویلیاں میں گرنے والے طیارے کے حادثے کو ایک سال بیت گیا۔
حویلیاں طیارہ حادثے کی تحقیقات میں جاں بحق پائلٹس،عملے اور انجینئرکو حادثے سے بری الذمہ قرار دیدیا گیا ہے۔ طیارے کو (پروپیلر) پنکھوں میں تکنیکی خرابی کے باعث حادثہ پیش آیا تھا۔ تحقیقات میں جہازکے بائیں انجن اور پنکھے میں تکنیکی خرابی کے ساتھ ٹرانسپونڈر، سرکٹ بورڈ اور الیکٹریکل سسٹم میں خرابی کی بھی تصدیق ہوگئی ہے۔ پنکھوں کی خرابی کے باعث پائلٹ جہازکو دائیں انجن پرلیکر نہ جاسکا جب کہ حتمی تحقیقاتی رپورٹ اپریل2018ء میں جا ری کی جائیگی۔یہ طیارہ چترال سے اسلام آبادآتے ہوئے حویلیاں کے قریب گرکرتباہ ہوا تھا۔
تحقیقاتی ذرائع کے مطابق سیفٹی انویسٹی گیشن بورڈکی تحقیقاتی رپورٹ حتمی مراحل میں داخل ہوگئی ہے، بلیک باکس ، وائس ریکارڈ اور لاگ بک کی رپورٹ سے تصدیق ہو چکی ہے کہ جہازکو حادثہ تکنیکی خرابی کے باعث پیش آیا۔ انویسٹی گیشن بورڈ نے پائلٹس کی میڈیکل ہسٹری ،فلائنگ ریکارڈ، لاگ بک اور ایئر ٹریفک کنٹرول کمیونکیشن کو بھی کلیئرکر دیا ہے جبکہ تباہ جہازکے وائس ریکارڈر ، بلیک باکس، پائلٹس کی میڈیکل ہسٹری اور لاگ بک کی رپورٹ ایس آئی بی کو موصول ہو چکی ہے۔
واضح رہے کہ طیارہ حادثے کی تحقیقات میں تین غیر ملکی کمپنیوں یوٹاس ایجنسی،اے ٹی آرکمپنی اور فرانسیسی کمپنی نے تعاون کیا، یوٹاس ایجنسی کی حتمی رپورٹ18 مارچ کو موصول ہوگی جبکہ اپریل2018ء کو طیارے حادثے کی حتمی رپورٹ جاری کی جائے گی۔ حادثے کی تحقیقات میں جہازکا بائیں طرف کا انجن خراب ہونے کی تصدیق ہوئی۔ انجن خراب ہونے سے جہازکا الیکٹریکل سسٹم جزوی طور پر ناکارہ ہوگیا جس وجہ سے ٹرانسپونڈر نے کام کرنا چھوڑ دیا اور ریڈار سے رابطہ ختم ہوگیا ،سمت کا تعین نہ ہونے سے جہاز روٹ سے ہٹا،کنٹرول ٹاور اورریڈار سے رابطہ ٹوٹنے پر جہاز مشرق سے جنوب کی طرف مڑگیا۔
تحقیقات کے مطابق پائلٹ نے4بج کر12منٹ پرکنٹرول ٹاورکو انجن کی خرابی سے آگاہ کیا اور تین مے ڈے کالز دیں،کاک پٹ میں تین پائلٹ موجود تھے۔پائلٹ علی اکرم کو1700گھنٹے ، کیپٹن صالح جنجوعہ کو 1200گھنٹے اورمعاون پائلٹ احمد جنجوعہ کو360گھنٹے فلائنگ کا تجربہ تھا۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال7 دسمبر چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے پی آئی اے کے جہازکو حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوگیا تھا جس کے نتیجے میں جہاز کے عملے سمیت47افراد جاں بحق ہو گئے تھے جن میں جنید جمشید،انکی اہلیہ، ڈپٹی کمشنر چترال اوران کی فیملی شامل تھی۔