اسلام آباد: وزیر مملکت طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت شروع ہوگئی ہے جبکہ طلال چوہدری نے ایک بار پھر عدالت سے درگزر کرنے کی استدعاکی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جسٹس گلزا ر احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ سماعت کررہا ہے،اس موقع پر وزیر مملکت برائے داخلہ اپنے وکیل کے ہمراہ عدالت میں موجود ہیں، طلال چوہدری نے ایک بار پھر عدالت سے معاملہ درگزر کرنے کی استدعا کی ہے۔
چودہ مئی کو ہونے والی سماعت کے موقع پر سپریم کورٹ نے وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کیخلاف توہین عدالت کیس میں دو ہفتے مہلت کی استدعا مسترد کردی تھی۔
دوران سماعت جسٹس گلزار نے طلال چوہدری سے استفسار کیا تھا کہ آپ کے وکیل کہاں ہیں،جس پر طلال چوہدری نے عدالت کو بتایا کہ میرے وکیل کیس کے سلسلے میں کوئٹہ گئے ہیں،وزیر مملکت برائے داخلہ نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ کیس میں دو ہفتے کی مہلت دی جائے، جسے عدالت عظمیٰ نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اکیس مئی کو وکیل کو لے کر آئیں پھروقت نہیں دیا جائے گا۔
اس سے قبل جسٹس اعجاز افضل کی ریٹائرمنٹ کے بعد طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کا سماعت کرنے والا بینچ تحلیل ہوگیاتھا، جس پر چیف جسٹس آف پاکستان نے بارہ مئی کو جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا،جسٹس سردار طارق اورجسٹس فیصل عرب بینچ کا حصہ بنایا گیا تھا۔واضح رہے کہ سات مئی کو سپریم کورٹ میں طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کیس کی سماعت کرنے والا بینچ تحلیل ہواتھا، جس کے باعث کیس کی سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی ہوگئی تھی جبکہ طلال چوہدری نے توہین عدالت کا نوٹس واپس لینے کی استدعا کی ،جس پر جسٹس اعجاز افضل نے یقین دہانی کرا ئی آپ کو اپنی صفائی پیش کرنے کا پورا موقع دیا جائے گا۔سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ احسن اقبال پر حملہ افسوسناک ہے، وزیر داخلہ پر حملہ صرف ایک سیاسی جماعت کے قائد پر حملہ ہے ؟ انہوں نے کہا ایسے واقعات سے ملک کا عالمی سطح پر غلط تاثر جاتا ہے، پاکستان کو ناکام کرنے کا پلان کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا ہم نے ٹھان لی ہے پاکستان میں انتہاپسندی نہیں رہنے دیں گے، کراچی میں جماعت اسلامی کو شکست کیلئے ایم کیو ایم بنائی گئی، لیکن وہی ایم کیوایم پاکستان کو توڑنے کی بات کرتی رہی۔ انہوں نے کہا ہم نے کسی پرالزام لگا کر کارکنوں کو کوئی پیغام نہیں دیا، ہم اس بلٹ کا مقابلہ بیلٹ سے کریں گے۔
اس سے قبل چار مئی کو ہونے والی سماعت وکیل صفائی کامران مرتضیٰ کی استدعا پر ملتوی کی گئی تھی، ملزم کے وکیل کامران مرتضیٰ نے موقف اپنایا تھا کہ انہوں نے اس نقطے کا فیصلہ کرنا ہے کہ ملزم کا بیان حلف پر کروانا ہے یا نہیں، اس لیے عدالت سے استدعا ہے کہ سماعت کو چودہ مئی تک ملتوی کیاجائے،جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ حلف پر بیان نہ دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑت
یاد رہے کہ پندرہ مارچ کو جسٹس اعجاز افضل کی سربراہی میں تین رکنی بینچ مسلم لیگ (ن) کے رہنما طلال چوہدری پر توہین عدالت کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔
اس سے قبل سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران طلال چوہدری کے وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت فرد جرم عائد کرنے سے پہلے ان کی بات سنے، عدالتی فیصلوں کو دیکھ کرشاید ہمارا کیس بہترہوجائے، کیونکہ سپریم کورٹ کے بہت سے ایسے فیصلے موجود ہیں جس میں عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کیا جن کا حوالہ دینا ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیئے کہ آپ حوالہ دے دیجئے گا لیکن بعد میں، آج ہم نے آپ پر چارج فریم کرنا ہے، کیس میں پہلے ہی بہت وقت گزر چکا ہے، موخر نہیں کرنا چاہتے۔
طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ اس کیس میں انسانی حقوق کا مسئلہ نہیں آپ کی شان میں گستاخی کا معاملہ ہے جس پر جسٹس مقبول باقر نے کہا کہ یہ کسی فرد کی شان کا معاملہ نہیں ادارے کا معاملہ ہے، ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کا کیس خراب ہو رہا ہے۔