کراچی میں جعلی پولیس مقابلے میں نوجوان نقیب اللہ محسود کے قتل سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت آج ہوگی۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثارکی سربراہی میں تین رکنی بینچ نقیب اللہ محسود قتل کیس کی سماعت کرے گا،عدالت نے مقدمہ کی سماعت کے لئے سیکریٹری داخلہ، ڈی جی سول ایوی ایشن اور ایڈووکیٹ جنرل سندھ ،آئی جی سندھ اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو نوٹس جاری کر دیئے ہیں۔ اس سلسلے میں آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ، ایڈیشنل آئی جی ثنا اللہ عباسی اور دیگر حکام اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ گزشتہ روز گرفتار ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ ملیر کی عدالت میں پیش کیا گیا جب کہ عینی شاہدین بھی فاضل عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ ملزمان میں سب سے پولیس اہلکار محمد اقبال کو شناخت پریڈ کے لیے پیش کیا گیا جسے واقعے کے چشم دید گواہ نے شناخت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم سادہ لباس میں تھا اور پولیس موبائل کے پاس کھڑا تھا جب دیگر اہلکاروں نے ہمیں گرفتار کیا۔
کیس میں گرفتار دوسرے ملزم پولیس اہلکار ارشد علی کو بھی گواہوں نے شناخت کرلیا، چشم دید گواہ نے بتایا کہ ملزم اس پولیس موبائل میں تھا جس نے ہمیں شیر آغا ہوٹل سے سچل پولیس چوکی پہنچایا۔ دوسرے ملزم کی شناخت پریڈ کے بعد تیسرے ملزم اے ایس آئی اللہ یار کو پیش کیا گیا تو گواہان نے اسے بھی شناخت کرتے ہوئے کہا کہ 3 جنوری کو جب ہمیں سادہ لباد اہلکاروں نے گرفتار کیا تو یہ ملزم بھی انہی اہلکاروں میں شامل تھا۔شناخت پریڈ کے بعد تینوں ملزمان کو تھانے منتقل کردیا گیا۔
دوسری جانب جوڈیشل مجسٹریٹ جنوبی کی عدالت میں ایس ایچ او سہراب گوٹھ شعیب شیخ کی وارنٹ گرفتاری کے معاملے پر سب انسپکٹر علی حیدر نے رپورٹ جمع کرادی۔ رپورٹ کے مطابق جب گرینڈ جرگے کے لوگ جمع ہوئے توایس ایچ او تھانے کے روزنامچے میں جعلی میڈیکل انٹری کرکے فرار ہوگیا، ایس ایچ او شعیب شیخ مفرور راؤ انوار کے خاص ہیں، ایس ایچ او شعیب شیخ 5 دن قبل سہراب گوٹھ تھانے سے فرار ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایس ایچ او شعیب شیخ کا نمبر بند جارہا ہے اس لئے ان سے رابطہ نہیں ہورہا اور وہ ان 7 پولیس اہلکاروں میں شامل ہیں جنہیں گزشتہ دنوں معطل کیا گیا اور انہیں تنخواہ بھی روک دی گئی ہے۔ ان کے خلاف دفعہ 87،88 کی کارروائی شروع کی جارہی ہے جب کہ ملزم انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث رہے ہیں۔
اس کے علاوہ ایف آئی اے نے راؤ انوار کے فرار ہونے یانہ ہونے سے متعلق رپورٹ بھی تیار کرلی ہے، یہ رپورٹ ڈی جی ایف آئی اے کی ہدایات کی روشنی میں تمام زونز کی رپورٹس کی بنیاد پر تیار کی گئی، جس میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے نے ملک بھر کے تمام ائرپورٹس اور بارڈر چیک پوسٹس کے ریکارڈ چیک کئے ہیں لیکن راؤ انوار کی ملک سے فرارہونے کی تصدیق نہیں ہوئی۔ راؤ انوار کی گرفتاری کے لیے اسلام آباد جانے والی پولیس ٹیم نے بےنظیربھٹو انٹرنیشنل ائیرپورٹ کی پارکنگ اور لاونج کا جائزہ لے کر ائیرپورٹ پر 22 جنوری کی شب ساڑھے گیارہ بجے سے لیکر 23 جنوری کی شب پونے دو بجے تک کی ویڈیو فوٹیج کا ریکارڈ حاصل کرلیا۔
وڈیو کے ذریعے انکشاف ہوا ہے کہ راؤ انوار ایمریٹس ائیرلائن کی پرواز نمبر 615 پر سفر کرنا چاہتے تھے اور ان کی بکنگ بزنس کلاس کی تھی لیکن ان کے لیے بورڈنگ کارڈ نارمل انٹرنیشل لاؤنج سے جاری کرایا گیا، بورڈنگ پاس کس نے راو انوار تک پہنچایا اس کا پتہ نہیں چلایا جاسکا تاہم پاس جاری کرنے والے اہلکار نے کہا ہے کہ اگر وہ شخص ایک بار سامنے آجائے تو اسے پہچان لے گا۔ ٹیم کو خدشہ ہے کہ راو انور دوبارہ بیرون ملک جانے کی کوشش کرسکتے ہیں اس لیے ائیرپورٹ پر امیگریشن اور سیکیورٹی فورس کو الرٹ رکھا جائے۔
اسلام آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے آئی جی سندھ اللہ ڈنو خواجہ نے کہا کہ راؤ انوار کی تلاش جاری ہے، وہ واٹس ایپ پر لوگوں سے رابطے میں ہے لیکن پولیس کے پاس واٹس ایپ کال ٹریس کرنے کی صلاحیت نہیں ہے اس لئے پی ٹی اے سے رابطہ کیا ہے، ضروری نہیں ہے کہ راؤ انوار نے جعلی دستاویزات بنائی ہوں۔ ہم نے جعلی دستاویزات سے متعلق ایف آئی اے سے رابطہ کیا ہے۔ دریں اثنا راؤ انوار کی تلاش کے لیے آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ نے پنجاب پولیس کے سربراہ سے مدد مانگ لی ہے۔