ماں باپ کے لئے اولاد سے بڑھ کر کبھی کوئی چیز پیاری نہیں ہوتی ہے. ان کی اولاد چاہے جیسی بھی ہو وہ انہیں ساری دنیا سے پیاری لگتی ہے. ایسے ہی میں بھی اپنی ماں کو بہت پیاری لگتی تھی بچپن میں تومیرا رنگ روپ کچھ نہیں تھا مگر جوانی میں قدم رکھتے ہی میں بلا کی حسین ہو گئی تھی. میری ماں مجھے کہتی تھی کہ زمانہ بہت خراب ہے تو گھر سے باہر نہ نکلا کر میری ماں مجھے کہتی کہ یہ میری ننھی پڑی ہے میں اسے کبھی خود سے دور نہ کرونگی یہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور آنکھوں کا نور ہے. میری خالہ بھی مجھسے بہت پیار کرتی تھی انہوں نے مجھے پیدا ہوتے ہی اپنے بیٹے وسیم کے لئے پسند کر لیا تھا مگر میری ماں کہتی تھی کہ جب وسیم کسی قابل ہوگا تبھی میں اپنی بیٹی کا رشتہ دونگی. وسیم بھی مجھ پر جان دیتا تھا. خالہ نے بڑی کوشش کی کہ وسیم پڑھ لکھ جائے تو کسی قابل ہو جائے مگر وہ بمشکل میٹرک کر سکا اس کے آگے وہ نہیں پڑھ سکا.وسیم کسی بیکری میں کام کرتا تھا وہاں اس کا کام گاہکوں کو چیزیں تول کر دینا ہوتا تھا مگر بارہ گھنٹوں کی اس نوکری میں بھی وہ بہت تھک جاتا تھا. ایک دن کسی وجہ سے ہڑتال ہو گئی اور وسیم نے دیکھا کہ ارد گرد کے لوگ دکانیں بند کر رہے ہیں اس نے مالک کو فون کر کے بتایا کہ پتا نہیں لوگ کیوں دکانیں بند کر رہے ہیں آپ بتائیں میں کیا کروں؟ مالک نے کہا میں ابھی آرہا ہوں تم کام سمیٹو میں آ کے تال ڈال دوں گا. ابھی وسیم نی فون رکھا ہی تھا کہ دو آدمی اندر آگئے اور کہنے لگے کیا تمنے دیکھا نہیں کہ لوگ دکانیں بند کر رہے ہیں تم نے کس لئے نہیں بند کی؟ وسیم نے کہا بس جی ابھی بند کر رہے ہیں. اس آدمی نے کہا لاؤ کیش مجھے دو، وسیم نے کہا کہ میرے پاس نہیں ہے کیش مینجر کے پاس ہے مگر مینجر سے مانگنے پر اس نے کیش نہیں دیا انہوں نے اس کو گولی مار دی دوسرے نے وسیم کو بھی گولی مار دی اور وہ دونوں وہاں سے بھاگ نکلے. مینجر اور وسیم اسی وقت موقه پر ہی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. خالہ کے گھرجب وسیم کی میت پہنچی تو وہ صدمے سے نڈھال ہو گئیں سبھی لوگ جوان موت پر دکھ اور افسوس کر رہے تھے. زخم جتنا بھی گہرا ہو آخر بھر ہی جاتا ہے اور خالہ اور امی کو بھی صبر آ ہی گیا مرحوم بھانجے کا دکھ بھلا کر اب امی کو میری فکر لاحق ہو گئی وہ جو کہتی تھیں کہ کبھی مجھے خود سے جدا نہیں کریں گی اب ہر وقت یہی سوچتی کہ جلد سے جلد میں کسی اچھے گھر میں بیاہی جاؤں. ماں کی دعا آخر کو رنگ لے ہی آئی میرے لئے ایک پائلٹ کا رشتہ آگیا امیر لوگ تھے انہیں ایک اچھی اور خوبصورت گھر کو سنبھال کے چلانے والی لڑکی کی ضرورت تھی. سمیر کی والدہ مجھے دیکھنے آئیں تو میں انہیں پہلی نظر میں ہی پسند آگئی. امی نے خالہ سے صلہ مشورہ کر کے رشتہ کر دیا.میں سمیر کی دلہن بن کر ان کے گھر آ گئی. سمیر میرے تصور سے بھی بڑھ کے نکلے وہ بہت محبت کرنے والے احساس خیال رکھنے والے انسان تھے. میں خود کو دنیا کا سب سے خوش قسمت انسان سمجھنے لگی. اس گھر میں آکر مجھے کسی چیز کی کمی نہ تھی ساس اور نند بھی بہت اچھی تھی سب کچھ ٹھیک تھا مگر ایک چیز جو مجھے ٹھیک نہیں لگتی تھی وہ تھا میرا دیور. پہلے دن مجھے میرے دیور نے سلام کیا اور گھر سے باہر چلا گیا اس کے بعد میں نے تین دن تک اس کی شکل نہیں دیکھی.میں نے سمیر سے ظہیر کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے مجھے بڑے کسیلے انداز میں جواب دیا کہ تم اس کے بارے میں نہ کچھ سوچو اور نہ کچھ پوچھو اس کی فکر کرنے کے لئے اماں ہیں نہ، ان کا ایسا جواب سن کر میں نے کبھی پھر انسے بات کرنے کی ہمت نہیں کی. ایک انسان جو گھر کا فرد ہو مگر وہ آپ کو کبھی کبھی گھر میں نظر ائے اور صرف کھانے کی حد تک اس کا واسطہ ہو تو آپ کو تجسس تو ہوتا ہے ایک دن میں نے یہی بات ساس سے پوچھ لی مگر وہ بھی میری بات کو ٹال گئیں. لیکن ایسی باتیں چھپی کہا رہتی ہیں ایک دن میرا وہ تجسس بھی ختم ہو ہی گیا ہوا یوں کہ ایک رات ظہیر نشے کی حالت میں گھر آیا اور آتے ہی ماں سے لڑنا جھگڑنا شروع کر دیا سمیر اس کی آواز سن کر دوڑے گئے اور ظہیر کو اس کے کمرے میں لے جا کر سلا دیا اور کمرے کو باہر سے تالا لگا دیا اور ماں سے کہا اب صبح کھولنا اسے. اگلے دن ظہیر جب کمرے سے باہر آیا تو اس کی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئیں تھیں. اب میں سمجھ گئی تھی کہ وہ نشہ کرتا ہے. اس گھر میں سبھی لوگ بہت اچھے تھے مگر صرف ظہیر ہی ایسا تھا. سمیر مجھسے بہت محبت کرتے تھے وہ کہتے تم ہو ہی بہت خوبصورت کہ چودھویں کا چاند، تم چاہے جانے کے ہی قابل ہو. شادی کے بعد میں شوہر کا پیار ملنے کے بعد اور بھی نکھر گئی تھی. اس دن جب ظہیر گھر آیا تو وہ بہت ترنگ میں تھا ماں کی گود میں سر رکھ کر لیٹ گیا اور کہنے لگا کہ میرے سر میں اپنا ہاتھ پھیرو مجھے بہت سکوں ملتا ہے اس دن اس نے مجھے بھی کہا بھابھی اچھی سی چائے پلادو بہت دنوں سے اچھی چائے نہیں پی ہے. مجھے اس کے دیکھنے کا انداز بہت خوفناک لگتا تھا. وہ جب گھر ہوتا تو میں کوشش کرتی کہ اپنے کمرے میں ہی رہوں زیادہ باہر نہیں نکلوں. شادی کی چھ مہینے ہو گئے تھے امی کے گھر آئی تو امی نے پوچھا سسرال میں سب لوگ اچھے تو ہیں نا…..ہان سب اچھے ہیں سوائے ایک کے، بے اختیار میرے منہ سے نکلا تو امی نے چونک کہ میری طرف دیکھا اور بولی کون ہے وہ؟ میں نے اپنے دیور کے بارے میں بتایا اورساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ مجھے اس کی نظروں سے ڈر لگتا ہے مجھے لگتا ہے کہ اسکی نظریں میرے زیور پر ہیں، میں نے اپنے سونے کی چین اور جھمکے اتار کر رکھ دئے ہیں مگر سونے کی چوڑیاں سمیر اتارنے نہیں دیتے کہتے ہیں تم سہاگن ہو چوڑیاں نہیں اتارنی مجھے تمھارے ہاتھوں میں سونے کی چوڑیاں اچھی لگتی ہیں. ماں نے مجھے سمجھایا کہ تمہاری ساس اور شوہر بہت اچھے ہیں آجکل کے نوجوان نشے میں پڑتے جا رہے ہیں تو گھر والے بیچارے کیا کرئیں اب وہ ایسی اولاد یا بھائی سے کنارہ کشی تو نہیں کر سکتے نا……ایک دن میں گھر پر اکیلی تھی سمیر کام پر تھے اور ساس اپنی بہن کے گھر گئی ہوئیں تھیں میں گھر پر اکیلی تھی مگر مجھے بہت ڈر لگ رہا تھا کہ اتنے میں امی آگئیں میں بہت خوش ہو گئی جب میں نے امی کو بتایا کہ میں ڈر رہی تھی تو وہ کہنے لگیں اپنے گھر میں ڈر کیسا؟ میں نے کہا امی مجھے ڈر تھا کہ ظہیر دو دن سے گھر نہیں آیا تھا تو اگر آج ا گیا تو کیا ہوگا؟ امی نے کہا تمہیں اتنا ہی ڈر ہے تو تم دروازہ نہ کھولنا جب تک ساس گھر نہ آ جائیں. امی واپس چلی گئیں اور ظہیر بھی نہیں آیا دو دن بعد ساس دوبارہ بہن کی طرف جانے لگیں تو مجھسے رہا نہ گیا اور میں نے انہیں کہ دیا کہ امی آپ مت جائیں مجھے اکیلے گھر میں ڈر لگتا ہے؟ وہ بولیں جنوں بھوتوں کا وہم کرتی ہو کیا اب میں تمھارے لیۓ کہیں آنا جانا چھوڑ دوں؟ میں نے کہا نہیں ایسی بات نہیں ہے انکو اس قدر غصے میں دیکھ کر میں نے ان سے کہ دیا کہ مجھے ظہیر سے ڈر لگتا ہے یہ سنتے ہی وہ بھڑک پڑیں میں ہر بات برداشت کر سکتی ہوں مگر کوئی میرے بیٹے پر کوئی الزام دھرے یہ نہیں برداشت ہوگا. انہوں نے مجھے اچھی خاصی سنا ڈالی. اسی دن ظہیر گھر آگیا وہ بہت دیر تک دروازہ بجاتا رہا مگر میں نے دروازہ نھے کھولا آخر وہ واپس چلا گیا. شام کو اس نے ماں کو شکایت کی کہ میں نے اس کے لئے دروازہ نہیں کھولا مجھے سخت بھوک لگی تھی، یہ سنتے ہی ساس آگ بگولہ ہو گئیں مجھے بہت برا بھلا کہا. اور آئندہ ایسی حرکت کرنے پر گھر سے نکالنے کی دھمکی دی. اس بار سمیر کی ٹریننگ چھ ماہ کی تھی اور مجھے ماں کے گھر جا کر رہنے کی اجازت نہیں ملی. ایک دن ساس بیٹی سے ملنے حیدرآباد چلی گئیں. اور میری امی کو فون کر دیا کہ بیٹی کے پاس چکر لگا لینا میں ایک دن وہاں رہوں گی، ماں جی کے جاتے ہی ظہیر آگیا میں نے ساس کے ڈر سے دروازہ کھول دیا اس کی نظر میری کلائیوں پر پڑی تو گویا ہٹنا ہی بھول گئیں میری سونے کی چوریوں پر اس نے ایسی نظر سے دیکھا کہ میں اندر تک سے کانپ گئی. اس نے کھانا مانگا….میں نے گرم کر کے لا کر دے دیا، ٹرے اس کے سامنے رکھی تو اس نے فورا میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگا…آپ کی چوڑیاں بہت خوبصورت ہیں آپ ماں کی جگہ ہیں میں آپکو ماں کی جگہ ہی سمجھتا ہوں امی گھر نہیں ہیں اور مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے امی سے مانگتا تو وہ ضرور دے دیتیں میری اچھی بھابھی پولیس میرے پیچھے لگی ہے انکار مت کرنا مجھے دے دو…… میرا ڈر جائز تھا میری چھٹی حس جو کہتی تھی وہ سب سچ تھا میں نے چوڑیاں اس کو دینے میں ہی عافیت جانی انکار پر نہ جانے وہ کیا کرتا. چوڑیاں لیتے ہی وہ کھانا کھائے بنا ہی چلا گیا. اس کے جانے کے بعد میں نے دروازہ بند کیا ور اپنے کمرے میں جا کر لیٹ گئی اور دعا کرنے لگی کہ وہ دوبارہ نہ ائے. ایک گھنٹہ بعد دوبارہ دستک ہوئی تو پہلے سوچا نہیں کھولوں گی پھر خیال آیا کہ کوئی اور ہوا یا سمیر ہوۓ تو پوچھا کون ہے؟ جواب ملا، میں ہوں تمہاری ماں، آواز سنتے ہی میرے مردہ تن میں جان آگئی ان کے اندر آتے ہی میں ان سے لپٹ کر رونے لگی امی گھبرا گئیں اور پوچھنے لگیں کیا ہوا کیوں رو رہی ہو؟ امی کو سارا حال سنایا ….انہوں نے کہا ساس آ جائیں تمہاری تو بات کرتی ہوں؟ ایک نشئی گھر میں ہے اور بہو کو اکیلا چھوڑ کر چلی جاتی ہیں کیا بیٹے کے کرتوت نہیں جانتی. شام کو ساس کا فون آیا امی نے بات کی اور بیٹے کی ساری حرکت بتا دی. ساس نے کہا میں ابھی سوار ہو رہی ہوں اور اپ اس بات کا ذکر سمیر سے بلکل نہیں کرنا. تین گھنٹے بعد ساس آ گئیں اور آتے ہی امی سے معذرت کرنے لگیں وہ بولیں، میری ایسی چوبیس چوڑیاں تھیں چھ بیٹی کو دے دیں اور چھ بہو کو باقی بارہ میرے پاس موجود ہیں بیٹی تم غم نہ کرو میں تمہیں چوڑیاں دے دوں گی. مگر سمیر کو کچھ مت بتانا. اس وقت تو میں خاموش رہی مگر جب سمیر ائے تو میں نے ان سے ساری بات بتا دی کہ میں پہلے دن سے اسی لئے ڈرتی تھی وہ میرے زیور کو تکتا تھا. سمیر بہت شرمندہ تھے وہ کہنے لگے میں نے امی کو پہلے دن سے ہی کہا تھا کہ اس کو پیسے نہ دیں مگر وہ کہتی تھیں کہ پیسے نہ دئے تو وہ چوریاں کریگا جیل جائے گا پھر بھی تو تم اسکو چھرانے جاؤ گے بدنامی الگ ہوگی. امی نے سمیر سے کہا کہ وہ مجھے الگ گھر میں رکھے نہیں تووہ مجھے لے جائینگی انہیں اس نشئی پر کوئی اعتبار نہیں ہے. سمیر نے ماں کی مخالفت کے باوجود مجھے الگ فلیٹ امی کے گھر کے پاس ہی لے دیا. کچھ دن بعد یہ افسوسناک خبر ملی کہ ظہیر نے ماں سے پیسوں کا مطالبہ کیا اور جب وہ پیسے نہ دے سکیں تو انکو چھرا گھونپ دیا……بیچاری ماں بیٹے کے ہاتھوں ماری گئیں اور ظہیر کو پولیس پکڑ کر لے گئی……
Post Views - پوسٹ کو دیکھا گیا: 165
About MH Kazmi
Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276