سعودی دار الحکومت ریاض کے عالی شان رٹز کارلٹن ہوٹل کو اب تک اپنے خوبصورت باغات، پُرتعیش اور وسیع رہائیشی کمروں، جگمگاتے ڈائننگ ہال، بہترین ریستورانوں اور مردوں کے لئے مخصوص معدنی چشموں پر ناز تھا لیکن چند ماہ پہلے تک اس کا علم نہیں تھا کہ اسے کرپشن کے الزام میں گرفتار دو سو شہزادوں کی نظر بندی اور ان سے پوچھ گچھ کے لئے ایذا رسانی کے مرکز کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
ریاض کا رٹز کارلٹن ہوٹل ہی نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں ایسے بہت سے ہوٹل ہیں جہاں پچھلی ایک صدی سے تاریخ رقم ہوتی رہی ہے۔
استنبول کا پیرا پیلس ہوٹل جو 1892ء میں یورپ سے اورینٹ ایکسپریس سے ترکی آنے والے مالدار مسافروں کے قیام کے لئے تعمیر ہوا تھا۔ اس ہوٹل کو اس بات پر فخر تھا کہ اس میں پہلی بار بجلی استعمال کی گئی اور بالائی منزلوں پر آنے جانے کے لئے ایلیویٹرز نصب کئے گئے تھے۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان عبد الحمید نے گنے چنے ترکو ں کو اس ہوٹل میں غیر ملکیوں سے ملنے اور رقص و سرور کی محفلوں میں شرکت کی اجازت دی تھی ۔ پھر اسی ہوٹل نے 1909ء میں کمال اتا ترک کی قیادت میں ترک انقلاب میں سلطان عبد الحمید کا زوال دیکھا۔ یہ ہوٹل اس علاقہ میں واقع ہے جو لٹل یورپ کہلاتا ہے۔ اسی ہوٹل میں ایگیتا کرسٹی نے1934ء میں اپنا مشہورجاسوسی ناول ” مرڈر آن دی اورینٹ ایکسپریس” لکھا تھا۔
ترکی کے شہر ازمیر میں گرینڈ ہوٹل کرامیر پیلس نے 1922ء کا وہ انقلاب دیکھا ہے جب کمال اتاترک نے یونانیوں کو شکست دے کر ازمیر پر قبضہ کیا تھا جو اس زمانہ میں سمرنا کہلاتا تھا۔ کمال اتاترک فتح کے بعد سیدھے کرامیر پیلس ہوٹل گئے اور وہاں یونانی ویٹر سے پوچھا کہ کیا بادشاہ کانسٹنٹائین یہاں آکر شرب پیتا تھا؟ ویٹر نے جواب میں کہا، ‘نہیں تو’۔ کمال اتا ترک نے کہا کہ تو پھر میں نے ازمیر کو کیوں فتح کیا۔ اسی زمانہ میں اتا ترک کی فاتح فوج نے کرامیر پیلس ہوٹل کو نذر آتش کر دیا اور کئی سو افراد اس آگ میں جھلس گئے۔
شام کے تاریخی شہر (حلب) میں بیرون ہوٹل شام کا قدیم ترین ہوٹل ہے۔ اس ہوٹل میں ٹی ای لارنس ٹہرا تھا اور بل ادا نہیں کئے تھے۔1918ء میں اس ہوٹل میں شام اور عراق کے بادشاہ امیر فیصل قیام کر چکے ہیں اور 1958ء میں مصر کے صدر جمال عبد الناصر نے اسی ہوٹل کی بالکونی سے حلب کے شہریوں سے خطاب کیا تھا۔ 2012ء میں اس ہوٹل نے نہ صرف خونریز خانہ جنگی دیکھی بلکہ اس کا نشانہ بنا اور اس کی چھت اور بالائی منزل گولیوں سے چھلنی ہوگئی۔ اس ہوٹل میں ایک زمانہ میں مصطفی کمال اتا ترک قیام کر چکے ہیں اور حالیہ خانہ جنگی کے دوران اس میں جنگ کے بے گھر متاثرین نے پناہ لی ہے اور اس کی دیواروں نے ان کی آہیں اوردکھ بھری داستانیں سنی ہیں۔
لبنان کے دار الحکومت بیروت کے دو ہوٹل ، شان و شوکت اور خانہ جنگی کی تباہی کے عبرت ناک نشان نظر آتے ہیں۔ یہ ہیں ساحل سمندر کے کنارے سینٹ جارج اور بلند و بالا پہاڑی پر ہالی ڈے انِ۔ سینٹ جارج، خانہ جنگی سے پہلے، مشہور اداکاروں کی آماجگاہ تھا، جن میں فرانسیسی اداکارہ بریجٹ باردو اور پیٹر اوٹول نمایاں تھے۔ مشہور برطانوی جاسوس کم فلبی بھی اسی ہوٹل میں ٹہر چکے ہیں۔ ایک دوسرے کے قریب ان ہوٹلوں نے 1975ء میں شروع ہونے والی خونریز خانہ جنگی دیکھی ہے۔ عیش وعشرت کے یہ ہوٹل ایسی ہولناک جنگ کا نشانہ بنے کہ ابھی تک بیروت کے شہری اسے نہیں بھول سکے ہیں۔ گو خانہ جنگی 1990ء میں ختم ہوگئی لیکن سنٹ جارج اور ہالی ڈے کے ڈھانچے ابھی تک جھلسے کھڑے ہیں۔
قاہرہ کا شیپیرڈس ہوٹل، وکٹوریہ دور کی عمارتوں کے طرز پر 1871ء میں کاروان سرائے کے طور پر تعمیر کیا گیا تھا۔ 1942ء میں دوسری عالم گیر جنگ کے دوران، مصر میں برطانوی افسر، غیر ملکی سفیر، مالدار امریکی، مشرق وسطیٰ کی حسین خواتین، روسی سفارت کار، جنگ کی خبریں بھیجنے والے مشہور صحافی اسی ہوٹل میں ٹہرتے تھے۔
اس ہوٹل نے جولائی 1952ء میں جمال عبدالناصر اور محمد نجیب کی قیادت میں نوجوان فوجی افسروں کی بغاوت کے نتیجے میں مصر کے بادشاہ فاروق کو تخت سے اترتے اور اٹلی میں جلاوطنی اختیار کرتے دیکھا۔ اور پھر اسی سال برطانیہ کے مخالف مظاہرین نے جب شہر میں آگ لگائی تو شیپیرڈس ہوٹل ان کا پہلا نشانہ بنا تھا اور مسمار ہو گیا ۔ 1957ء میں شیپیرڈس ہوٹل دوبارہ بنا لیکن اصل ہوٹل سے ایک میل کے فاصلے پر۔ اب بھی یہ ہوٹل 2014ء سے مرمت اور اس سر نو تزین کے لئے بند ہے۔
عراق کے شہر موصل میں جو پچھلے دنوں تک داعش کے کنٹرول میں تھا ۔ 1980ء میں دجلہ کے کنارے تعمیر ہونے والے نینوا اوبرائے ہوٹل نے پہلے صدام حسین کا دور دیکھا پھر امریکا، برطانیہ اور مغربی حوایوں کی جنگ دیکھی اور پھرداعش کے خون آشام عذاب سے گذرا اور چند ماہ پہلے داعش کے خلاف عراقی فوج کشی دیکھی جس کے دوران یہ داعش کا مورچہ بنا رہا۔ اچھا ہوا کہ یہ بڑی حد تک مسمار ہوگیا کیونکہ اس میں پچھلے چار سال سے جاری داعش کے ظلم و ستم اور خونریزی کی داستان بیان کرنے کی سکت نہیں۔
یروشلم میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل شہر کے مشرقی اور مغربی علاقہ کے درمیان واقع ہے جو ایک طویل تاریخ کا شاہد ہے۔ 1946ء میں جب یروشلم برطانیہ کے کنٹرول میں تھا، صہیونیوں کے دہشت گرد گروپ ارگن کے تباہ کن دھماکہ کا نشانہ بنا تھا جس سے ہوٹل کا جنوبی حصہ جس میں برطانوی فوج کا ہیڈ کوارٹر تھامسمار ہوگیا۔اس دھماکے میں 91 افراد ہلاک ہوگئے۔ ان میں برطانوی، عرب اور یہودی شامل تھے۔
چھ منزلہ کنگ ڈیوڈ ہوٹل کا جنوبی حصہ دوبارہ تعمیر ہوگیا ہے لیکن مسمار شدہ حصہ کی تصاویر ہوٹل میں آویزاں ہیں۔ کنگ ڈیوڈ ہوٹل نے 1931ء سے یروشلم میں فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مصائب دیکھے ہیں اور اس ہوٹل نے دیکھا ہے کہ کس طرح پچاس سال پہلے، فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور ان کے مکانات سے بے دخل کیا گیا اور اس سر زمین سے انہیں نکال دیا گیا جہاں ان کے آبائو اجداد صدیوں سے رہ رہے تھے، نہ جانے کب تک اس شہر پر اسرائیل کا تسلط برقرار رہتا ہے۔