لاہور ( ویب ڈیسک ) ہمارے سابق وزیر خزانہ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ عوام کی چیخیں نکلیں گی اور آج وہ عہدے پر نہیں ہیں مگر ان کا کہا سچ ہونکلا ہے۔مگر ابھی تو ٹریلر ہے پکچر ابھی باقی ہے دوست ،کیونکہ اصل مہنگائی تو رمضان شریف کے بعد شروع ہو گی اور حکومتی موقف کے مطابق دو سال تک تو مہنگائی کی ریشو کم ہونے سے رہی۔ پٹرول گیس کے ساتھ دیگر اشیا کی قیمتوںمیں اضافے کی وجہ سے مہنگائی کا ریلا آیا ہے جس نے غریب طبقے کو پیس کر رکھ دیا ہے۔عوام دہائیاں دیتے نظر آتے ہیں جبکہ حکمران جماعت طفل تسلیوں سے کام لے رہی ہے۔ اسی مہنگائی کو لے کرحکمران جماعت تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے اپنی ہی حکومت کی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں غریب عوام کے لیے ٹھیک نہیں ہیں۔ نور عالم خان اپنی ہی حکومت پر برس پڑے اور حکومت کی معاشی پالیسوں سے کھل کر اختلاف کیا۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں غریب عوام کے لیے ٹھیک نہیں۔ عمران خان نے ان لوگوں کو چنا ہے جنہیں عوام کا دردہی نہیں ہے۔ اگرکسی ان پڑھ کو بھی کرسی پر بٹھا دیں وہ بھی ایسی معیشت چلالے گا، چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کے لیے باہر سے لوگوں کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ کسی گاﺅں کے فرد کو بھی بٹھا دیں تو یہ کام کردے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کو جو پٹی پڑھائی جاتی ہے وہ مان لیتے ہیں۔سنا ہے گورنر اسٹیٹ بینک پہلے آئی ایم ایف میں تھے۔ شاید اسمبلی میں قابل لوگ نہیں اس لیے باہر سے لوگوں کو بلایا گیا ہے۔نور عالم خان کا کہنا تھا کہ اقتدار میں آنے سے پہلے ہر کوئی عوام کی بات کرتا ہے۔ باہر کچھ کہتے ہیں اور کرسی پر بیٹھ کر کچھ اور کہتے ہیں۔ ہر وزیر خزانہ پٹرول اور گیس مہنگا کردیتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جو وزیر خزانہ آتا ہے وہ یہی کہتا ہے کہ ملک کا خزانہ خالی ہے ۔ پٹرول اور آٹا مہنگا کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا، ملک دیوالیہ نہیں ہے بلکہ ہمارے لوگ نکمے ہیں۔ دوسری جانب نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے بجٹ تجاویز کو حتمی شکل دینے کے اقدامات شروع کردیے ہیں جس میں نئے بجٹ میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ میں اضافے کی تجویز دی گئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہےکہ آئندہ بجٹ میں سالانہ 12لاکھ روپے ٹیکس چھوٹ کو کم کرنے کی سفارش ہے جب کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے سالانہ ٹیکس چھوٹ کی حد8سے9لاکھ روپے کرنے کی تجویز ہے۔ذرائع کے مطابق 12لاکھ روپے سالانہ پر ٹیکس چھوٹ سے25ارب روپے کا نقصان ہوا ہے۔ دوسری جانب خبر یہ ہے کہ وفاقی مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو پہلے دن سے آئی ایم ایف کا اعتماد حاصل تھا، حفیظ شیخ گزشتہ ایک ماہ سے خاموشی سے وزیرخزانہ کی ذمہ داری بھی سرانجام دے رہے تھے، سابق وزیرخزانہ اسد عمر کے دورہ امریکا میں آئی ایم ایف ٹیم کے ساتھ معاملات بگڑ گئے تھے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق نئے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے بارے معلوم ہوا ہے کہ ان کوپہلے مہینے سے ہی آئی ایم ایف کا مکمل اعتماد حاصل رہا ہے۔