کوفہ کے ایک شخص نے بڑے دھوم دھام سے ایک ساتھ اپنے دو بیٹوں کی شادی کی، ولیمہ کی دعوت میں تمام اعیان واکابر موجود تھے، مسعر بن کدام، حسن بن صالح، سفیان ثوری، امام اعظم بھی شریک دعوت تھے، لوگ بیٹھے کھانا کھا رہے تھے کہ اچانک صاحب خانہ بدحواس گھر سے نکلااور کہا ”غضب ہوگیا “زفاف کی رات عورتوں کی غلطی سے بیویاں بدل گئی جس عورت نے جس کے پاس رات گزاری وہ اس کا شوہر نہیں تھا.سفیان ثوری نے کہا امیر معاویہ کے زمانے میں ایسا واقعہ پیش آیا تھا، اس سے نکاح پر کچھ فرق نہیں پڑتا ہے؛ البتہ دونوں کو مہر لازم ہوگا،مسعر بن کدام،امام صاحب کی طرف متوجہ ہوئے کہ آپ کی کیا رائے ہے، امام صاحب نے فرمایا پہلے دونوں لڑکے کو بلایا جائے تب جواب دوں گا، دونوں شوہر کو بلایا گیا اما م صاحب نے دونوں سے الگ الگ پوچھا کہ رات تم نے جس عورت کے ساتھ رات گزاری ہے، اگر وہی تمہارے نکاح میں رہے کیا تمہیں پسندہے ؟دونوں نے کہا: ہاں! تب امام صاحب نے فرمایا: تم دونوں اپنی بیویوں کو جن سے تمہارا نکاح پڑھایا گیا تھا، اسے طلاق دے دو اورہر شخص اس سے نکاح کر لے جو اس کے ساتھ ہم بستر رہ چکی ہے.(عقود الجمان ص:۲۵۵)حضرت سفیان ثوری نے جو جواب دیا تھا مسئلہ کے لحاظ سے وہ بھی صحیح تھا،وطی بالشبہ کی وجہ سے نکاح نہیں ٹوٹتا ہے؛ مگر امام صاحب نے جس مصلحت کو پیش نظر رکھا، وہ ان ہی کا حصہ تھا؛ اس لیے کہ وطی بالشبہ کی وجہ سے عدت تک انتظار کرنا پڑتا جو اس وقت ایک مشکل امر تھا پھر عدت کے زمانے ہر ایک کو یہ خیال گزرتا کہ میری بیوی دوسرے کے پاس رات گزار چکی ہے، اور اس کے ساتھ رہنے پر غیرت گوارہ نہ کرتی اور نکاح کا اصل مقصد الفت ومحبت، اتحاد واعتماد بڑی مشکل سے قائم ہوپاتا …