مانچسٹر ( ایس ایم عرفان طاہر سے ) دی امیگرنٹ کے زیر اہتمام مقامی لائبریری میں علمی و ادبی ورکشاپ کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں کتاب تحریر کرنے کے حوالہ سے نہ صرف دس سنہری اصولوں پر روشنی ڈالی بلکہ مصنف اور تخلیق کار کی اہمیت پر بھی گفتگو کی گئی۔
اس موقع پر سماجی ، سیاسی ، مذہبی و ادبی حلقوں کے ساتھ ساتھ تمام مکا تب فکر نے بھرپور شرکت کی۔ورکشا پ کے سٹیج سیکرٹری کے فرائض ڈاکٹر یونس پرواز اور معروف ریڈیو پریذینٹر ماریہ خان نے سرانجام دیے۔ اس موقع پرکونسلر عابد چو ہان ، چئیر آف بیم بری سٹی کونسل زرقا احمد ،سنجیو ورغیس ، عالم انوار ، اعجاز حسین ، سیکرٹری جنرل یو کے پی این پی برمنگھم قمر خلیل ، ثاقب راجہ ، افتخار ، شیخ امتیاز ، چوہدری مسرت علی لال قلعہ گروپ ، میجر ڈاکٹر محمد سفیان ، ذوالفقارعلی ، سا ئرہ قریشی ، افشاں ،محمد اشرف ،نصر حسین ، نجیب اللہ ڈائر یکٹر گولڈن آرٹس ،حنا یعقوب ، عطا چو ہان ، تاثیر چوہدری ، عبدالرزاق اور دیگر بھی موجود تھے۔ ورکشاپ کے دوران نوجوان صحافی و معروف کالم نگار ایس ایم عرفان طاہر ، ڈاکٹر یونس پرواز اور معروف ریڈیو پر یذینٹر ماریہ خان کوانکی ادبی ،سماجی و صحافتی خدما ت پر تمغہ حسن کا رکردگی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
دی امیگرنٹ ورکشاپ کے شرکاء سے بطو ر مہمان خصوصی پر مغز خطاب کرتے ہو ئے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر انسٹیٹیوٹ آف پیس اینڈ ڈویلپمنٹ (انسپا ڈ ) برطانیہ و ممتاز برطانوی سکالر گوہر الماس خان نے کہاکہ کسی انسان کی شناخت کے لیے اسے سننا اور پھر مزید اسکے بارے میں جا ننے کے لیے اسے پڑھنا بہت ضروری ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ امیگرنٹ کی حیثیت سے جو افراد اس دیار غیر میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں انکے کے لیے یہ با ت نہا یت ضروری ہے کہ اپنی زبان اور اپنے کلچر سے وابستہ رہتے ہو ئے اس معا شرے میں مثبت خدما ت سرانجام دیں۔ اس ملک کو اسی احترام اور محبت کا درجہ دیں جو وہ اپنے وطن عزیز کو دیتے ہیں ۔ انہو ں نے کہاکہ دی امیگرنٹ ایک ایسا مضمون ہے جو پردیس میں رہنے والے ہر فرد کی ذاتی زندگی سے جڑا ہوا ہے۔
انہوں نے کہاکہ دی امیگرنٹ بیسٹ سیلر ہر شخص کو یہ احساس دلاتی ہے کہ وہ اس سے منصوب ہے اوراسی کی روداد بیان کرتی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ جواں سال نسل کو اپنی صلا حیتیں برئوے کار لانے اور خود کو ایک کامیاب انسان متعارف کرا نے کیلیے علم و ادب سے منسلک ہونا پڑے گا۔ سابق لارڈ مئیر آف گریٹر مانچسٹر کونسلر نعیم الحسن نے کہاکہ لکھنے پرھنے سے رشتہ جوڑنے کے بعد ہی اپنی شخصیت اور اخلا ق کو وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ جو لوگ علم و ادب کے میدان میں اپنی صلا حیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں انکی معاونت کے حوالہ سے مو ئثر کردار ادا کرنا ہو گا۔ انہو ں نے کہاکہ کسی معا شرے میں مصنفین پیدا کرنا آسان کام نہیں ہے یہ ایک خداداد صلاحیت ہے جس سے اللہ کسی کسی کو نوازتا ہے۔ معاشرے کی تظہیر اور علم کی ترویج کے لیے علم و ادب کا فروغ انتہا ئی ضروری ہے۔
سابق مئیر آف سٹاک پورٹ کونسلر کیون ہگ نے کہا کہ انگریزی ادب کو سمجھنے کے لیے شیکسپئیر کو پڑھنا ضروری ہے۔ انہو ں نے کہاکہ تعلیم و ادب میں گراں قدر خدما ت کرنے والوں کی بد ولت آج معا شرے میں علم کی شمعیں روشن ہیں۔ انسان کو اپنے خوابوں کی تعبیر اور حقیقی کامیابی کے لیے اس شعبہ سے استفادہ حاصل کرنا ہو گا۔ کونسلر رب نواز اکبر نے کہاکہ کتاب در حقیقت خیالات و جذبا ت کے اظہا ر کا نام ہے۔ جس ماحول میں انسان بستا ہے اس میں رونما ہو نے والے ہر واقع کو اپنے اندر نقش کرنے کے بعد اسے کاغذ پر تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اور یہی تخلیق اسکی کتاب کی صورت اختیا ر کر لیتی ہے۔ انہو ں نے کہاکہ کوئی بھی کتاب لکھنے یا تحریر کرنے سے پہلے سب سے ضروری چیز پڑھنا ہے کیونکہ بغیر کسی نالج اور معلومات کے خزانہ کے کوئی بھی تحریر عملی سطح پر وجود نہیں پکڑ سکتی ہے۔
انہو ں نے کہاکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس معاشرے میں ہم رہتے ہیں وہا ں بسنے والے دیگر افراد کو بھی اس بات کی حیثیت اور اہمیت کا شعور فراہم کیا جائے کہ لکھنا پڑھنا کس قدر ضروری ہے۔ شا عرہ نغمانہ کنول نے کہاکہ ہر انسان کے اندر شعور و آگہی کے حوالہ سے ایک ٹیلینٹ موجود ہو تا ہے جسے کسی مناسب وقت میں اجا گر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے انہو ں نے کہا کہ مصنف بننا ہر ایک شخص کے بس کی با ت نہیں ہے اسکے لیے انسان میں پہلے سے کوئی نہ کوئی دلچسپی اور گنجائش موجود ہونا لازم ہے ۔ انہو ں نے کہاکہ لکھنے سے قبل پڑھنا انتہا ئی ضروری ہے پھر الفاظ خود بخود با ہر آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ انہو ں نے کہاکہ علم و ادب سے وابستہ افراد قابل تحسین ہیں معا شرے میں دوسرے رہنے والوں کو بھی انکی معاونت اور حوصلہ افزائی کے حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چا ہیے۔
کونسلر عاصم رشید نے کہاکہ بد قسمتی سے علم و ادب سے وابستہ افراد کو زندگی سے زیادہ مرنے کے بعد ہی ہما رے معاشرے میں پذیرائی نصیب ہوتی ہے۔ اسلیے ہمیں چاہیے کہ زندگی میں ہی ایسے افراد کی خدمات کے اعتراف میں انہیں داد تحسین سے نواز جا ئے اور انکو مزید آگے بڑھنے اور اس شعبہ میں نمایاں خدمات پیش کرنے کے لیے بھی خا طر خواہ مواقع فراہم کرنے چاہیں۔ سنئیر صحافی و چئیرمین پاکستان پریس کلب ما نچسٹر محمد جا وید خان نے کہاکہ اردو ادب ایک وسیع و بلیغ مضمون ہے اس حوالہ سے آہستہ آہستہ نوجوان نسل میں رحجان پھیلتا ہوا دکھائی دے رہا ہے لیکن ضرورت اس با ت کی ہے کہ اس شعبہ میں ایسے افراد کو مواقع فراہم کیے جائیں جو دلچسپی اور اہلیت کے بھی متحمل ہوں ۔صحافت اور علم و ادب میں پڑھے لکھے افراد کی شمولیت سے اس شعبہ میں بہتری کی فضاء پیدا ہو گی۔
چیف ایڈیٹر ہفت روزہ اردو ٹا ئمز برطانیہ طا ہر چو ہدری نے کہاکہ امیگرنٹ کے حوالہ سے آنے والا وقت خاصا کڑا ثا بت ہو گا ۔ انہو ں نے کہاکہ کوئین کی حالیہ تقریر کی روشنی میں دیکھا جا ئے تو موجودہ حکومت امیگرنٹ کی زندگی اجیرن کرنے جا رہی ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ دنیا میں عدل و انصا ف کے علمبردار معا شرے میں نا انصافی اور انسانی حقوق کی پامالی کو فروغ دیا جا رہا ہے ۔ انہو ں نے کہا کہ امیگرنٹ کی حیثیت سے ہمارا یہ اولین فریضہ ہے کہ جو لوگ ہما رے ہم خیال اور جن کو ہم نے عام انتخابات میں سپورٹ کے زریعہ سے پارلیمینٹ میں بھجوایا ہے انکی اس مسئلہ کے حوالہ سے مل جل کر لابنگ کی جا ئے اور اس پالیسی کے خلا ف آواز بلند کی جا ئے ۔ انہو ں نے کہاکہ ہمیں اس دیا ر غیر میں رہتے ہو ئے اجتماعی سطح پر اپنے ملک کے خلا ف آواز نہیں اٹھا نی چا ہیے ہما رے ملک میں بہتر نظام اور اصلا حات کی گنجائش ہمہ وقت موجود ہے لیکن اس حوالہ سے تنقید کا نشانہ بنا تے ہو ئے پو رے معاشرے کو کرپٹ اور حرام قرار دینا درست بات نہیں ہے۔
ڈا کٹر عامر سہیل نے کہا کہ امیگرنٹ کے مسائل با رے حکومت کو آگا ہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی پالیسیوں میں نرمی لے کر آئے۔ انہو ں نے کہاکہ ایسی ورکشاپس سے نہ صرف عام لوگوں کے مسائل با رے آگاہی حاصل ہو گی بلکہ علم و ادب کے شعبہ کی طرف رحجان بھی پیدا ہو گا۔ہو میو ڈا کٹر عبد الباسط نے کہاکہ کتاب لکھنے والا اپنے لیے ایک حیات جا وداں کا انتخاب کر لیتا ہے۔ انہو ں نے کہاکہ اس شعبہ میں آگے بڑھنے والوں کا ساتھ دینا ہو گا تا کہ مثبت سرگرمیوں کو فروغ دیتے ہو ئے کتاب کی اہمیت اجا گر کی جا ئے ۔نوجوان صحافی و معروف کالم نگا ر ایس ایم عرفان طا ہر نے کہاکہ کوئی بھی کتاب جن کو لکھا ئی جا تی ہے یا جو لکھتے ہیں اس کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ لکھنے والے کا نام یہاں رہ جائے اور کتاب سے لوگوں کو بھی منفعت ہو۔
انہوں نے کہا کہ زندگی کسی میدان کا رزار کانام نہیں یہ جلوہ گاہ اور حسن کی شاہکار ہے اس زندگی میں انسان کی حیثیت ایک قطرے کی سی ہے لیکن جب یہی قطرہ خود کو پہچان لے شب کی تاریکیوں اور جہا لت کے اندھیروں سے نکل کر علم و عرفان کے نور سے منور ہو تو یہی قطرہ قلزم کی شکل اختیا ر کر لیتا ہے اور یہی زندگی سراپا حسن و جما ل بن جا تی ہے۔ نوجوان مصنف سید کا شف سجا د نے اپنے خیال کا پہلا قطرہ دی امیگرنٹ بیسٹ سیلر کی صورت میں ترتیب دیا پھر مئیر ر ہسٹری آف مئیر اولڈھم اور مئیر ہسٹری مئیر آف ہینڈ برن لکھ کر ان قطروں کو قلزم کی شکل دے دی ۔انہو ں نے کہاکہ خدا کرے کہ یہ جستجو مزید آگے بڑھے اور پھر با ت ان لا ئبریریوں کی زینت بننے والی کتا بوں تک جا پہنچیں ۔ تقریب کے اختتام پر نوجوان مصنف سید کا شف سجا د نے آنے والے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور دی امیگرنٹ فیملی ڈنر کا بھی اہتمام کیا گیا۔