counter easy hit

کھیلوں میں نفسیاتی تربیت کی اہمیت

The importance of psychological training in sports

The importance of psychological training in sports

کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں نفسیاتی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں،اس کی بدولت غیر ملکی کھلاڑی بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، سپورٹس سائیکالوجی پیشہ ور کھلاڑیوں اور کوچز کے ساتھ کارکردگی کو بہتر بنانے اور حوصلہ افزائی میں اضافہ کرنے کے لیے کام کرتی ہے جبکہ ہمارے کھلاڑی اور آفیشلز اس سے نابلد ہیں، یہ علم کھلاڑیوں کو دباؤ سے بھرپور کھیلوں میں ذہنی صلاحیتوں کو ابھارتی اور کھلاڑیوں کارکردگی بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔

جدید دور میں ہمارے کھلاڑی ٹورنامنٹ کی انعامی رقم، شائقین یا میڈلز جیتنے کے دباؤ کے ساتھ کھیل کا آغاز کر رہے ہیں جبکہ غیر ملکی پلیئرز اس دباؤ سے نبرد آزما جانتے ہیں، کرکٹ میں کھلاڑی ایک دن سنچری سکور کرتا ہے اور دوسرے دن وہ صفر پر آؤٹ ہو جاتا ہے، سکور نہ کرنے کی وجہ سے کھلاڑی اضافی دباؤ ہوتا ہے، مزیدبرآں ماہرین اس کی تکنیک پر تبصرہ شروع کرکے مزید پریشر میں ڈال دیتے ہیں جس کے باعث وہ بہترین پرفارمنس نہیں دے پاتا، یونس خان انگلینڈ کے خلاف سیریز میں اچھا پرفارم نہیں کر رہے تھے، محمد اظہر الدین کی فون کال کے بعد ان کی پرفارمنس قابل دید رہی، محمد اظہر الدین نے یونس کا دوست ہونے کے ناطے انہیں ذہنی دباؤ سے باہر نکالا، اگر ہاکی کی بات ہو تو اومان کے خلاف پہلے میچ میں پاکستانی ٹیم 2-2 گول سے برابر رہی، کھلاڑی میچ کے پہلے 20 منٹ میں اپنا روایتی کھیل پیش کرنے میں ناکام رہے۔

کولمن آرکو کھیلوں کی نفسیات کا بانی سمجھاتا ہے، 1918ء میں کولمن نے سپورٹس سائیکالوجی کے بارے میں پڑھائی شروع کی، بعدازاں کولمن نے باسکٹ بال اور فٹبال کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر ریسرچ کی، ڈاکٹر کارل نے پہلی سپورٹس سائیکالوجی کی لیبارٹری کی بنیاد 1920ء میں رکھی، جرمنی کے شہر کے کالج آف فزیکل ایجوکیشن میں رابرٹ وارنر نے افتتاح کیا، لیبارٹری میں فزیکل صلاحیتوں اور کھلاڑیوں کے رویئے، جائزہ اور پیمائش کرتے، 1932ء میں ماسکو میں بھی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کا اجراء کیا گیا، اسپورٹس سائیکالوجسٹ نارمن ٹرپلٹ نے 1898ء میں پہلی مرتبہ سائیکلسٹ پر ریسرچ کا آغاز کیا اور نتائج بھی شائع کئے جبکہ اسی سال ڈبلیو سپرٹور (یالے یونیورسٹی) نے ایتھلیٹس کے ری ایکشن ٹائم پر ریسرچ کی اور نتائج سے کھلاڑیوں کو آگاہ کیا۔

1920ء میں سائیکالوجسٹ والٹر مائلز نے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر فٹبال کے کھلاڑیوں پر ریسرچ کی، والٹر نے کھلاڑیوں کی پرفارمنس جانچنے اور ری ایکشن ٹائم جانچنے کے لیے ساز و سامان خود تیار کیا، 1921ء میں بیس بال کھلاڑی باب روتھ کی بال سپیڈ اور سوئنگ کو جانچنے کے لیے ریسرچ کا آغاز کیا گیا، اس میں روتھ کی ہینڈ آئی کوآرڈینیشن، کلائی کی حرکت اور ری ایکشن ٹائم کو جانچا گیا، نتائج کے مطابق روتھ کی ہینڈآئی کوآرڈینیشن، کلائی کی حرکت اور ری ایکشن ٹائم عام آدمی سے زیادہ رہی تھی۔

اسپورٹس سائیکالوجی مختلف موضوعات کی ایک بڑی تعداد ہے، کئی پیشہ ور سائیکالوجسٹ نے مخصوص تراکیب پر توجہ مرکوز کی جبکہ دیگر نے وسعت دی، اہم موضوعات میں خوداعتمادی، دباؤ، خود کلامی اور امیجز سمیت ذہنی و اندرونی صلاحیتیں، مثبت مسابقتی صلاحیتیں اور رویئے کو فروغ دینے کیلیے اور کھیل سے متعلق اہداف و دیگر شامل ہیں، سپورٹس سائیکالوجسٹ کھلاڑیوں میں ناکامی، شرمندگی اور عمومی کارکردگی کے خوف پر قابو پانے میں مدد کرسکتے ہیں، نتائج کے بارے میں انتہائی حساس کھلاڑیوں کارکردگی کے بارے میں فکر مشترک ہے، مقابلہ کے لیے ذہنی طور پر تیاری، بہتر کارکردگی نہ ہونے کے ڈر سے چھٹکارہ، چوٹ کے بعد کھلاڑیوں کی میدان میں واپسی، ٹریننگ میں بہتری و دباؤ میں عمدہ پرفارمنس کرنے میں بھی سپورٹس سائیکالوجسٹ مدد دے سکتے ہیں۔اسپورٹس سائیکالوجی اور نفسیاتی تقاضوں سے متعلق آگاہی سیمینار ناگزیر ہیں، ڈاکٹر اعجاز نے جرمنی سے سپورٹس سائیکالوجی میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی، وہ اور ان کی ٹیم جن میں شہباز ابراہیم، طیب منہاس اور ڈاکٹر اصغر جاوید نے سپورٹس میں ریسرچ کا آغاز کروایا، ڈاکٹر اعجاز اصغر، شہباز ابراہیم اور طیب منہاس کی زیرنگرانی ملک میں ہونے والی ایک ریسرچ کے مطابق کرکٹرز اور متعلقہ انتظامیہ سپورٹس سائیکالوجی سے استفادہ کرنے کے حوالے زیادہ مثبت رویہ رکھتے ہیں، بانسبت ان کھلاڑیوں کی جو صرف قومی سطح تک ہی محدود ہیں، زیادہ تجربہ کار کھلاڑی میں زیادہ اعتماد کے ساتھ سپورٹس سائیکالوجی سے استفادے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔

تجربہ کار کوچز کا رویہ زیادہ بہتر اور مثبت ہے،ایک تحقیق میں 45 کھلاڑیوں کا انتخاب کیا گیا جن کا تجربہ 2سے 15 سال کے درمیان تھا،57فیصد کھلاڑی کم از کم ایک مرتبہ اسپورٹس سائیکالوجی سے مستفید ہو چکے تھے جبکہ باقی ماندہ کھلاڑیوں میں کوئی ایسا رجحان نہیں پایا گیا، دوسری طرف 26فیصد تجربہ کار منتظمین کھیلوں کی نفسیات سے مستفید ہوئے جبکہ 73فیصد کوچز اس سلسلے سے نابلد تھے، راقم نے بھی سپورٹس سائیکالوجی پر تحقیق میں ہاکی کھلاڑیوں کی پنالٹی شوٹ آؤٹ پر کارکردگی کا جائزہ لیا، مقامی کلب میں30 روزہ تربیت کے بعد کھلاڑی اس قابل ہو گئے کہ دباؤ کا کوئی اثر نہیں لیا، بیڈمنٹن اور ٹیبل ٹینس کھلاڑیوں نے صرف 10 منٹ کی رہنمائی سے بہتر پوزیشن حاصل کی، ہمارے ہاں اس طرح کی ٹریننگ کا معمول نہ ہونے کی وجہ سے کارکردگی میں نکھار لانا ممکن نہیں ہوتا۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website