کرکٹ سمیت تمام کھیلوں میں نفسیاتی تقاضوں کا خیال رکھتے ہوئے مثبت نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں،اس کی بدولت غیر ملکی کھلاڑی بہتر سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، سپورٹس سائیکالوجی پیشہ ور کھلاڑیوں اور کوچز کے ساتھ کارکردگی کو بہتر بنانے اور حوصلہ افزائی میں اضافہ کرنے کے لیے کام کرتی ہے جبکہ ہمارے کھلاڑی اور آفیشلز اس سے نابلد ہیں، یہ علم کھلاڑیوں کو دباؤ سے بھرپور کھیلوں میں ذہنی صلاحیتوں کو ابھارتی اور کھلاڑیوں کارکردگی بہتر بنانے میں مدد دیتی ہے۔
کولمن آرکو کھیلوں کی نفسیات کا بانی سمجھاتا ہے، 1918ء میں کولمن نے سپورٹس سائیکالوجی کے بارے میں پڑھائی شروع کی، بعدازاں کولمن نے باسکٹ بال اور فٹبال کھلاڑیوں کی پرفارمنس پر ریسرچ کی، ڈاکٹر کارل نے پہلی سپورٹس سائیکالوجی کی لیبارٹری کی بنیاد 1920ء میں رکھی، جرمنی کے شہر کے کالج آف فزیکل ایجوکیشن میں رابرٹ وارنر نے افتتاح کیا، لیبارٹری میں فزیکل صلاحیتوں اور کھلاڑیوں کے رویئے، جائزہ اور پیمائش کرتے، 1932ء میں ماسکو میں بھی سپورٹس ڈیپارٹمنٹ کا اجراء کیا گیا، اسپورٹس سائیکالوجسٹ نارمن ٹرپلٹ نے 1898ء میں پہلی مرتبہ سائیکلسٹ پر ریسرچ کا آغاز کیا اور نتائج بھی شائع کئے جبکہ اسی سال ڈبلیو سپرٹور (یالے یونیورسٹی) نے ایتھلیٹس کے ری ایکشن ٹائم پر ریسرچ کی اور نتائج سے کھلاڑیوں کو آگاہ کیا۔
1920ء میں سائیکالوجسٹ والٹر مائلز نے ساتھی کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر فٹبال کے کھلاڑیوں پر ریسرچ کی، والٹر نے کھلاڑیوں کی پرفارمنس جانچنے اور ری ایکشن ٹائم جانچنے کے لیے ساز و سامان خود تیار کیا، 1921ء میں بیس بال کھلاڑی باب روتھ کی بال سپیڈ اور سوئنگ کو جانچنے کے لیے ریسرچ کا آغاز کیا گیا، اس میں روتھ کی ہینڈ آئی کوآرڈینیشن، کلائی کی حرکت اور ری ایکشن ٹائم کو جانچا گیا، نتائج کے مطابق روتھ کی ہینڈآئی کوآرڈینیشن، کلائی کی حرکت اور ری ایکشن ٹائم عام آدمی سے زیادہ رہی تھی۔