لاہور (ویب ڈیسک) حیرت ہے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں، جب دس کروڑ کیمرے مُلک کے چپے چپے میں موبائل فون کی صورت موجود ہیں،پولیس افسران شرمناک جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے۔ ساہیوال میں پولیس درندگی کی جو مثال سامنے آئی ہے،اُس سے بھی بڑی درندگی یہ ہے کہ نامور کالم نگار نسیم شاہد اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ معصوم شہریوں کو داعش کا دہشت گرد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔اب تک سانحے کی جو مختلف فوٹیج سامنے آ چکی ہیں، اُن میں یہ حقیقت بے نقاب ہو چکی ہے کہ سی ٹی ڈی کے اہلکاروں نے بغیر مزاحمت گاڑی کے قریب جا کر گولیاں ماریں،پھر ستم بالائے ستم یہ کہ لاشوں کو گاڑی میں چھوڑ کر رفو چکر ہو گئے۔آج تک کس نے دیکھا یا سُنا ہے کہ پولیس دہشت گردوں کو مار کر چلتی بنتی ہے، تاکہ دہشت گردوں کے ساتھی پیچھے سے آئیں اور اپنے ساتھیوں کی لاشیں لے جائیں۔ایک اور فوٹیج میں پولیس والے گاڑی سے چاروں مقتولین کا سامان نکالتے دیکھے جا سکتے ہیں،جن کے ساتھ ایک سادہ لباس میں افسر بھی نظر آ رہا ہے،سب سے زیادہ نااہل اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرنے والا تو سی ٹی ڈی ساہیوال کا انچارج ایس پی ہے، جس نے فراڈ کی حد کر دی۔ ایک ایسی کہانی گھڑی، جس کا سر تھا، نہ پیر۔ میڈیا کو مطلوب دہشت گردوں کی تصاویر جاری کیں اور بچوں کے ساتھ سفر کرنے والے شریف شہریوں کو اُن کا ساتھی بنا دیا۔وہی گھسی پٹی کہانی گھڑی کہ مقتولین اپنے ساتھیوں کی فائرنگ سے ہلاک ہو گئے۔اگر آج کا ڈیجیٹل دور نہ ہوتا تو پولیس نے یہ کہانی سچ ثابت کر دینی تھی، مگر ہائی وے پر پیچھے سے آنے والی بسوں میں سوار مسافروں نے ویڈیوز بنا لیں، جن میں واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ پولیس والے کوئی مقابلہ نہیں کر رہے تھے،بلکہ نہتے افراد کو،جو گاڑی سے اُترے بھی نہیں تھے،انہیں گولیوں سے بھون رہے تھے، ماتحت پولیس تو نجانے کب ٹھیک ہو گی،لیکن المیہ یہ ہے کہ اعلیٰ پولیس افسران بھی آؤ دیکھتے ہیں نہ تاؤ، پیٹی بھائیوں کو بچانے کے لئے جھوٹ کی گنگا بہا دیتے ہیں۔وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے سی ٹی ڈی کی جس رپورٹ کو مسترد کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ اُسے آئی جی پنجاب نے قبول کر لیا تھا۔قبول نہ کیا ہوتا تو آگے وزیراعلیٰ کو نہ بھیجتے۔ فوری طور پر اگر کسی کی گرفتاری بنتی تھی،تو وہ متعلقہ سی ٹی ڈی کا ایس پی ہے،جس نے سارا کھیل بگاڑا، پورے مُلک اور میڈیا کو گمراہ کیا۔ اُس کے علم میں تھا کہ پولیس مقابلہ نہیں ہوا اور نہ ہی اُس میں دہشت گرد ملوث تھے، مگر اس نے تضادات سے بھری ایک رپورٹ تیار کر کے آگے بھیج دی۔ یہ بھی نہ سوچا کہ اب آنکھوں میں مرچیں ڈالنے کا وقت نہیں رہا۔کوئی عقل کا اندھا ہو گا جو اب اس بات پر یقین کرے گا کہ ساہیوال میں کوئی پولیس مقابلہ ہوا ہے۔ مقتولین کی شناخت ہو چکی ہے اور وہ پُرامن شہری پائے گئے ہیں، پھر گاڑی میں بچوں کی موجودگی اِس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ پولیس ڈائریکٹ فائر کھولنے کی بجائے دیگر طریقے اختیار کرتی۔گاڑی کو برسٹ مار کر پنکچر کر دیتی یا اُس کا پیچھا کرتی۔ ایک رکی ہوئی کار کو پولیس موبائل سے اُتر کر نشانہ بنانے کی ویڈیو کسی ایسی کہانی کو ظاہر کر رہی ہے، جسے ابھی سامنے آنا ہے۔ پھر بچے کا یہ بیان کہ میرے والد پولیس والوں سے ’’ پیسے لے لو مجھے نہ مارو‘‘ کہتے رہے، مگر وہ نہ مانے۔ اس واقعہ سے ٹارگٹ کلنگ کی بُو بھی آتی ہے۔ اب جے آئی ٹی کو غالباً صرف اس نکتے پر تحقیق کرنی ہے کہ یہ قتل کس لئے کیا گیا؟اس کی اصل وجوہات کیا ہیں؟یہ کہانی اب بکنے والی نہیں کہ کار سواروں کو پچھلے ناکے پر روکا گیا تھا،وہ نہیں رکے، پیچھا کیا گیا تو فائرنگ کر دی، یا پھر یہ کہ اُن کے پیچھے تین موٹر سائیکل سوار بھی تھے، جو فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہو گئے۔سو گز پیچھے کھڑی بس سے بنائی جانے والی ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ گاڑی کو فائر مار کر روکا گیا ہے، وہ دائیں طرف کے ڈیوائیڈر سے ٹکرا کر رُک چکی ہے، پولیس ڈالے سے مسلح جوان اُترتے ہیں، گاڑی کے قریب جا کر فائرنگ کر دیتے ہیں، پھر دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر چلے جاتے ہیں، اُن کے جاتے ہی بس چلتی ہے اور ویڈیو میں صاف نظر آتا ہے کہ لاشیں گاڑی میں موجود ہیں۔ یہ کیسی اینٹی دہشت گردی فورس ہے،جو لاشیں گاڑی میں چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور تھوڑی دیر بعد دوسرا پولیس ڈالہ بھجواتی ہے، جو لاشیں نکالتا ہے، مارنے والے آخر، کار کے پاس کیوں کھڑے نہیں رہتے،اسے کارڈن آف کیوں نہیں کرتے۔ انہیں کس بات کا خوف تھا کہ موقع سے بھاگ گئے؟ پھر موقع پر ڈی پی او ساہیوال اور انچارج ایس پی سی ٹی ڈی کو فوراً پہنچنا چاہئے تھا، وہ کیوں نہیں پہنچے؟ کیا چور کی داڑھی میں تنکا تھا اور سب کے علم میں یہ بات آ چکی تھی کہ پولیس نے چار بے گناہوں کو مار دیا ہے۔ پھر یہ رپورٹ کس نے تیار کی، اس کی منظوری کس نے دی کہ پولیس کا داعش کے دہشت گردوں سے مقابلہ ہوا ہے۔کیا ڈی پی او نے اس کی منظوری دی، اگر دی تو وہ بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ قوم کی آنکھوں میں دھول جھونکنے والے بھی کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ اگر وہ اپنے اہلکاروں کو بچانے کے لئے قتل جیسی واردات کو بھی ہضم کر جاتے ہیں تو ان سے بڑا ظالم اور بد دیانت افسر کوئی نہیں۔کسی پولیس افسر سے پوچھو کہ آپ اپنے ماتحتوں کے مظالم پر پردہ کیوں ڈالتے ہیں، تو وہ یہ گھسا پٹا جواب لے آتا ہے کہ ہم اپنی فورس کا مورال ڈاؤن نہیں کرنا چاہتے۔ فوج میں تو ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں ذرا سی غلطی بھی قابلِ گرفت سمجھی جاتی ہے۔ وہاں اگر یہ فلسفہ اپنا لیا جائے کہ کسی کو کچھ نہیں کہنا، کیونکہ اس سے فورس کا مورال ڈاؤن ہو گا تو ذرا سوچئے کہ کیا کچھ نہیں ہوگا۔ آج لوگ کسی فوجی کو کھڑا دیکھیں تو اِس لئے خوفزدہ نہیں ہوتے کہ اُنہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ اپنے ڈسپلن سے باہر نہیں جائے گا، گیا تو اس کے ساتھ فوجی کمان کوئی رعایت نہیں برتے گی، خود اس فوجی سپاہی کو اس کا ادراک ہوتا ہے کہ اپنی بتائی گئی ڈیوٹی سے آگے نہیں بڑھنا۔ یہ پولیس عجیب فورس ہے۔ اس کے افسران یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے ماتحتوں کو غیر قانونی کاموں سے روکا تو بددلی کا شکار ہو جائیں گے،کسی بے گناہ کو مارنے پر ان کا احتساب کیا تو مایوسی کا شکار ہو جائیں گے، گویا آپ فورس کے نام پر درندے پال رہے ہیں، ایسا کر رہے ہیں، تو ساہیوال جیسے سانحات بھی رونما ہوتے ہیں۔پولیس کے بڑے بڑے تمن خان افسران آئے، لیکن پولیس کی تربیت کا معیار بہتر نہ کر سکے، حتیٰ کہ پولیس والوں کی ذہنیت تک تبدیل نہیں کی جا سکی۔ اُنہیں یہ باور ہی نہیں کرایا جا سکا کہ وہ عوام کے محافظ ہیں، ان پر حاکم تعینات نہیں کئے گئے،ان میں یہ احساس پیدا نہیں کیا گیا کہ اگر کسی پولیس والے کو دیکھ کر لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں تو یہ اس کی بدترین ناکامی ہے۔اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ لوگ اس کی موجودگی میں خود کو محفوظ سمجھیں۔پولیس افسران سے میری قریبی شناسائی ہمیشہ رہی ہے۔ مَیں نے اُنہیں اِس خبط میں مبتلا دیکھا ہے کہ کسی طرح پولیس کا امیج عوام کی نظروں میں بہتر ہو جائے۔ ملتان کے موجودہ آر پی او محمد وسیم خان نے تو تمام ایس ایچ اوز کو پابند کیا کہ وہ جمعہ کی نماز اپنے علاقے کی بڑی مساجد میں ادا کریں اور لوگوں میں گھل مل جائیں،لیکن یہ تو سونار کی ٹک ٹک ہے، جس پر پولیس والے ساہیوال جیسے سانحہ کے ذریعے ایک ایسی لوہار کی مارتے ہیں کہسب کچھ تتر بتر ہو جاتا ہے۔سونے پہ سہاگہ پولیس افسران کا رویہ ہوتا ہے،جس میں وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اپنے قاتل ماتحتوں کو بھی معصوم اور بے گناہ ثابت کریں۔ اب آتے ہیں حکومتی رویے کی طرف۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری اور صوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے اس موقع پر بھی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ فواد چودھری نے بلا سوچے سمجھے سی ٹی ڈی کے موقف کی تائید میں یہ بیان داغ دیا کہ مارے جانے والے چاروں خطرناک دہشت گرد تھے،جو پولیس نے مار دیئے ہیں۔ فیاض الحسن چوہان بھی یہی بیان دیتے رہے۔ یہ کیسے وزرائے اطلاعات ہیں،جو اپنی آنکھیں اور کان کھلے نہیں رکھتے۔ پورا میڈیا اور سوشل میڈیا چیخ چیخ کر دکھا رہا تھا کہ مقابلہ جعلی ہے اور چاروں افراد کی شناخت ہو گئی ہے۔ وہ معصوم شہری تھے، مگر وزرائے اطلاعات کی سوئی وہیں اٹکی ہوئی تھی۔ شام کے وقت جب وزیراعظم عمران خان نے وزیراعلیٰ عثمان بزدار سے اس سانحے پر بات کی اور سی ٹی ڈی اہلکاروں کی گرفتاری کا حکم دیا تو فواد چودھری کو بھی ہوش آ گیا۔اس کے بعد وہ ذمہ داروں کو نشانِ عبرت بنانے کا بیان دیتے رہے۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے بھی پھر یہ تاثر دیا کہ وہ کسی ’’حکم‘‘ کا انتظار کرتے ہیں، اُنہیں ازخود ساہیوال جانے کا فوری فیصلہ کرنا چاہئے تھا،مگر وہ اُس وقت گئے جب انہیں وزیراعظم عمران خان نے ساہیوال جانے کا حکم دیا۔انہیں تو فوراً وہاں پہنچ کر اپنا کیمپ آفس قائم کر لینا چاہئے تھا اور اُس وقت تک وہاں سے نہ اُٹھتے جب تک مظلوم خاندان کو انصاف نہ مل جاتا۔ اس سے بھی بڑھ کر تحریک انصاف کے لئے اب عملی اقدامات اٹھانے کا وقت آ گیا ہے۔ پنجاب پولیس میں اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں، اس واقعہ کے بعد تو اب عمران خان کے پاس اِس حوالے سے کسی غور کی گنجائش بھی موجود نہیں۔اگر اس سانحے کو انفرادی واقعہ سمجھ کر حل کرنا ہے اور اس سے کوئی سبق نہیں سیکھنا تو یہ وزیراعظم عمران خان کے لئے سانحہ ماڈل ٹاؤن سے بھی بڑا داغ بن جائے گا۔