کراچی: اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے توقع ظاہر ہے کہ نمو کی موجودہ رفتار جس کا بڑا سبب سی پیک سے متعلق سرمایہ کاری ہے جبکہ بیرونی براہ راست سرمایہ کاریوں میں اضافہ کرے گی۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئندہ 2 ماہ کے لیے قرضوں پرشرح سود 5.75 فیصد پر مستحکم رکھنے کا اعلان کردیا ہے۔ اسٹیٹ بینک کی نئی مانیٹری پالیسی کے مطابق رواں مالی سال ملکی ترقی کی شرح نمو کا عبوری تخمینہ5.3 فیصد لگایا گیاہے، جاری سال درآمدات میں نمایاں اضافہ جبکہ برآمدات میں معمولی بحالی ہوئی ہے، ترسیلات زر میں کمی کا رجحان ہے، بیرونی ادائیگیوں کا خسارہ بڑھ گیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کے مطابق مالی سال2017 میں حقیقی جی ڈی پی نموکا عبوری تخمینہ 5.3 فیصد لگایا گیا ہے جو10 سال کی بلند ترین سطح ہے۔ موجودہ تیزی میں ملکی طلب کی بحالی کا اہم کردار رہا ہے، سب سے زیادہ فائدہ انفرااسٹرکچر اور بجلی کے شعبے میں سرکاری اورنجی سرمایہ کاری سے ہواہے، اس کے علاوہ مستحکم مہنگائی کے ماحول اور بینکوں کی صارفی مالکاری میں ازسرنو دلچسپی کی بنا پرصارفی اخراجات میں بھی توسیع آئی ہے۔
رسدی حوالے سے گذشتہ برس کے مقابلے میں اہم فصلوں میں بحالی، توانائی کی بہتر رسد اور بڑے پیمانے کی اشیا سازی میں وسیع البنیاد اضافے نے اس توسیع میں مدد دی ہے۔ تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافے کی منتقلی سے عمومی مہنگائی بہ لحاظ صارف اشاریہ قیمت بھی حالیہ مہینوں میں کسی قدر بڑھی ہے اورآئندہ مالی سال میں آمدنی کے موجودہ رجحانات، درآمدات میں اضافے اور نجی شعبے کے بڑھتے ہوئے قرضے کی بنا پر مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے ورنہ یہ بھی ہدف کے اندر ہی رہے گی۔
دوسری جانب مرکزی بینک مطابق معاشی احساسات میں تیزی اور کم شرح سود نے بھی نجی شعبے کو اپنی استعداد میں توسیع کی ترغیب دی ہے۔ جولائی تا اپریل 2017 کے دوران نجی شعبے کے قرضے میں بھی 503 ارب روپے کا خالص اضافہ ہوا جو گزشتہ سال کی اسی مدت کے 334 ارب روپے سے خاصا زیادہ ہے۔
یہاں یہ امرقابل ذکرہے کہ نجی کاروباری اداروں کو قرضے کا بہاؤ وسیع البنیاد رہا اور اس کو زیادہ تحریک ٹیکسٹائل اور گارمنٹس، کیمیکلز، شکر، تعمیرات اور بجلی کے شعبوں سے ملی، مالی سال 2018 میں معاشی سرگرمیوں میں توسیع اور نجی شعبے کے قرضے میں اضافہ جاری رہنے کی توقع ہے، بینک ڈپازٹس کی بھرپور نمو اور مرکزی بینک کی مالکاری پر حکومت کے انحصار کے ساتھ کمرشل بینکوں کو خالص واپسی کی وجہ سے قرضے کی فراہمی میں سہولت رہی۔ نیز نقد سرمایے کی باقی ماندہ طلب سے نمٹنے کے لیے اسٹیٹ بینک کی طرف سے بازار زر کی نپی تلی کارروائیوں نے بھی اپنا کردار ادا کیا اور شبینہ ریپو ریٹ کو عمومی پالیسی ریٹ کے قریب رکھا، اس صورت حال کی عکاسی رسد زر (ایم ٹو) سے ہوئی جواپریل 2017 میں 13.8 فیصد بڑھ گئی جبکہ گزشتہ سالاپریل میں 13 فیصد تھی یہ اضافہ خالص بیرونی اثاثوں میں بھاری کمی کے باوجود ہوا جس کا سبب ادائیگیوں کے توازن میں مجموعی کمی تھا، جولائی تا اپریل 2017 میں معاشی سرگرمیوں میں توسیع کے ساتھ درآمدی ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہوا۔
دوسری جانب برآمدات میں صرف معمولی بحالی ہوئی جبکہ بیرون ملک مقیم کارکنوںکی ترسیلات زر بھی خلیج تعاون کونسل کے خطے میں لیبرمارکیٹ کی بدلتی ہوئی حرکیات کی بنا پر اس سال سست رفتار ہوگئیں، مذکورہ تمام عوامل کی وجہ سے جولائی تا اپریل 2017 کے دوران جاری کھاتے کے خسارے میں تیزی سے اضافہ ہوا چونکہ آنے والی رقوم جاری کھاتے کے عدم توازن کا پورا احاطہ نہ کرسکیں اس لیے مجموعی توازن ادائیگی خسارے میں بدل گیا جو پچھلے سال کی اسی مدت میں فاضل تھا۔
علاوہ ازیں مستقبل میں توقع ہے کہ آنے والی سرکاری رقوم سے زرمبادلہ کے ذخائر کو تقویت ملے گی، درآمدات میں اضافے کا پورے طور پر احاطہ کرنے کے لیے دیگر نجی رقوم خصوصاً بیرونی براہ راست سرمایہ کاری اور برآمدی آمدنی میں پائیدار اضافہ ضروری ہے، اس سلسلے میں عالمی طلب میں متوقع بہتری کے ساتھ درآمدات خصوصاً مشینری کی موجودہ ساخت مستقبل میں معاشی سرگرمیوں کے لیے اچھا شگون ہے۔