اسلام آباد(ویب ڈیسک)اسلام آباد سپریم کورٹ کی جانب سے آسیہ بی بی کو بری کرنے کے فیصلے کے خلاف 3 روزہ دھرنے کے دوران مبینہ طور پر تشدد میں شامل تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے 19 مقامی رہنماؤں کی گرفتاری کے لیے جاری کے گیے احکامات کوواپس لے لیےگیا ہے۔
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے اس سے قبل سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ ‘ضلعی انتظامیہ نے تشدد اور تشدد کے لیے اکسانے پر ایم پی او 1960 کی دفعہ تین کے تحت 19 افراد کے وارنٹ جاری کیے گیے ہیں’۔ٹی ایل پی کے 19 مقام رہنماؤں کی گرفتاری کے احکامات 2 نومبر کو جاری کیے گئے تھے۔ڈان ڈاٹ کام کو موصول ہونے والے ایک نوٹی فکیشن کے مطابق اسلام آباد کے ضلعی مجسٹریٹ حمزہ شفقت کی جانب سے 7 نومبر کو جاری کیے گئے ایک نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ 2 نومبر کو 19 افراد کی گرفتار کے لیے جاری ہونے والے گرفتاری کے احکامات ‘مفاد عامہ کے تحت’ واپس لے لیے گئے ہیں جس کا فوری طور پر اطلاق ہوگا۔مقامی انتظامیہ نے سیکریٹری داخلہ، اسلام آباد کے چیف کمشنر، انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس اور اڈیالہ جیل کی انتظامیہ کو گرفتاری کے احکامات واپس لینے کے حوالے سے آگاہ کردیا۔
ڈپٹی کمشنر سے ان افراد کی گرفتاری کی نوعیت جاننے کے لیے رابطہ کیا گیا تاہم وہ اپنا موقف دینے کے لیے دستیاب نہ ہوسکے۔یاد رہے کہ ٹی ایل پی اور دیگر مذہبی جماعتوں کی جانب سے 31 اکتوبر کو سپریم کورٹ کی جانب سے توہین رسالت کے الزام میں ہائی کورٹ سے سزا پانے والی آسیہ بی بی کو 8 برس بعد بری کرتے ہوئے رہا کرنے کے احکامات پر ملک بھر میں شدید احتجاج کیا گیا تھا۔ملک بھر میں تین روز تک جاری رہنے والے احتجاج کا اختتام حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان ایک کامیاب معاہدے کے بعد ممکن ہوا تھا جس کی اہم شق میں آسیہ بی بی کے نام کو ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں شامل کرنے کے لیے قانونی کارروائی شروع کرنے کے حوالے سے تھی۔معاہدے کے ایک روز بعد ہی وفاقی حکومت کی جانب سے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہچانے والے افراد کے خلاف کارروائی کے احکامات صادر کیے تھے۔وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ آسیہ بی بی کی بریت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کے دوران تشدد پر اکسانے کے لیے کی جانے والی تقاریر پر آنکھ بند نہیں کی جاسکتیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘کوئی یہ تاثر نہ لے کہ حکومت اس طرح کے بیانات کو بھول جائے گی’۔