بھارتی سپریم کورٹ کا فیصلہ بہت سخت ہے اور اس میں کسی قسم کا کوئی ابہام بھی نہیں ہے۔ بھارتی آئین کے منافی کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا جس میں مردوں اور عورتوں کو اپنی زندگی آزادانہ طور پر گزارنے کی ضمانت دی گئی ہے۔
میری خواہش ہے کہ بھارتی مسلمانوں کو سپریم کورٹ کی طرف سے بیک وقت تین طلاقوں پر پابندی کے فیصلے کو قبول کر لینا چاہیے تھا لیکن لگتا ہے کہ مسلمانوں کے کئی طبقے اس سے متفق نہیں ہیں۔ یہ ایک مسلمان خاتون شاہ بانو کے مقدمہ سے مماثل ہے جس کے معاملے میں بھارتی سپریم کورٹ نے 1985ء میں مداخلت کی تھی گو کہ اس کے لیے ایک طویل قانونی لڑائی لڑی گئی‘ مسلمانوں نے اس فیصلے کو قبول نہ کیا جن کا موقف تھا کہ عدالت کو مسلمانوں کے عائلی معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے مطابق طلاق یافتہ عورت کی دیکھ بھال کے لیے شرعی طور پر حق مہر مقرر ہوتا ہے لیکن سپریم کورٹ نے یہ موقف قبول نہیں کیا بلکہ عورت کے خرچے کے لیے ایک خاص رقم متعین کر دی۔ بیک وقت تین طلاقوں کی ایک سیکولر معاشرے میں گنجائش موجود نہیں ہے‘ بہت سے مسلمان ممالک نے بھی جن میں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش شامل ہیں اس پر پابندی عائد کر رکھی ہے لیکن بھارت کے حالات ایسے ہیں جہاں پر اس موضوع پر بحث نہیں ہو سکتی۔ بلکہ اس قسم کی کسی کوشش کو شرعی معاملات میں مداخلت قرار دے کر فوراً مسترد کر دیا جاتا ہے چنانچہ تین طلاقوں کا مسئلہ بدستور جاری ہے۔
اس کے برعکس ہندو پرسنل لاء بھارت کے اولین وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی مداخلت سے فوری طور پر عمل میں آ گیاتھا ۔ یہ نہرو ہی تھے جنہوں نے ہندوؤں میں پہلی مرتبہ طلاق کو متعارف کرایا حالانکہ ہندو مذہب میں طلاق کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بھارتی آئین ساز اسمبلی کے چیئرمین ڈاکٹر راجندر پرشاد کی طرف سے نہرو کی کڑی مخالفت کی گئی۔ ڈاکٹر راجندر پرشاد کی بہت عزت کی جاتی تھی مگر نہرو اپنے موقف پر قائم رہے کیونکہ حکومت کی مشینری نہرو کے کنٹرول میں تھی۔ مسلمانوں کو بھی کئی عشروں سے اس قسم کے چیلنج کا سامنا تھا۔ بیک وقت تین طلاقوں کا مسئلہ بھی طویل عرصہ سے موجود ہے۔ بعض خواتین نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے جہاں سے کہا گیا ہے کہ اس معاملے میں مرد وزن کی مساوات کو مدنظر رکھنا چاہیے۔
حکومت نے سوچا تھا کہ اس حوالے سے ایک سوالنامہ تیار کرے تاکہ اتفاق رائے حاصل ہو سکے لیکن حکومت ایسا کرنے سے باز رہی۔ کیونکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ نے اس کی بڑی سختی سے مخالفت کی۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ بورڈ کے ارکان میں کوئی خاتون شامل نہیں ہے لہٰذا اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہو سکی چنانچہ بنیاد پرست اپنے موقف پر قائم ہیں۔ یہ اتنا اہم سوال ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے پارلیمنٹ میں لایا جانا پڑے گا۔ بھارتی مسلمانوں میں چونکہ مختلف طبقے ہیں جن میں سے بعض نے ہنگامہ آرائی بھی کی ہے۔
مسلمان خواتین کی طرف سے خصوصی طور پر بائیکاٹ کیا گیا لیکن لاء بورڈ عملی طور پر اس سلسلے میں کوئی قدم نہیں اٹھاتا۔ اس سوال پر آخر بحث کس طرح ہو سکتی ہے جب کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ رائے عامہ جاننے کے لیے کسی سوالنامے کی تیاری کے سرے سے ہی خلاف ہے۔ خواتین جن کا تعلق ملک کے مختلف علاقوں سے ہے انھوں نے بہت احتجاج کیا ہے کہ ان کی آراء بھی لی جائیں لیکن نریندرا مودی کی حکومت کوئی قدم اٹھانے سے ہچکچاتی ہے کہ کہیں اس کا کوئی غلط مطلب نہ لے لیا جائے۔
لہٰذا کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ پارلیمنٹ کو چاہیے کہ وہ دونوں ایوانوں میں اس معاملے پر بحث کرائے بالخصوص خواتین سے ان کی آرا لی جائیں اور دیکھا جائے کہ سیاسی پارٹیوں کی اس معاملے پر خاموشی قابل فہم ہے چونکہ وہ ہر چیز انتخابی حوالے سے دیکھتی ہیں۔ بہت سی ریاستوں میں جن میں اترپردیش بھی شامل ہے جس میں ہندی بولنے والوں کی لوک سبھا میں 80 نشستیں ہیں‘ یہاں مسلم کمیونٹی کو کوکنگ میکر یعنی بادشاہ گر تصور کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ملائم سنگھ یادیو کی سماج وادی پارٹی مسلمانوں کے کافی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی۔
یو پی (اترپردیش) میں حالیہ اسمبلی انتخابات میں وزیر اعلیٰ اکلیش یادیو کو شکست ہو گئی حالانکہ اس کی کابینہ میں اعظم خان مسلمان وزیر موجود تھے جسے کہ مسلمانوں کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ کانگریس کا نائب صدر راہول گاندھی اپنی تقاریر میں مسلمانوں کو رجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن ان کی دال نہ گلی کیونکہ سونیا گاندھی کو مسلمانوں کے خلاف سمجھا جاتا ہے اگرچہ اب سونیا کو اطالوی نژاد ہونے کا طعنہ نہیں دیا جاتا اور اس کے جلسے میں اس کے بیٹے کی نسبت زیادہ لوگ آتے ہیں۔ سونیا کی بیٹی پریانکا واڈرا کے جلسے میں بھی راہول سے زیادہ ہجوم اکٹھا ہو جاتا ہے گویا اپنے بھائی کی نسبت وہ زیادہ مقبول ہے۔
ایک سیکولر جمہوری ملک میں تین طلاقوں کے مسئلے نے معاشرے کو تقسیم کر کے رکھ دیا ہو۔ سابق وزیراعظم راجیو گاندھی نے مسلمان بیوہ خواتین کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کی قانون سازی کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس وقت بابری مسجد کے انہدام کا قضیہ اٹھ کھڑا ہوا۔ واضح رہے پی وی نرسمہا راؤ کی حکومت میں بابری مسجد کو شہید کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح تین طلاقوں کا مسئلہ بھی حکومت کے قابو سے باہر ہے۔ یہ حیرت کی بات ہے کہ یہ مسئلہ اتنے طویل عرصے سے لٹکا ہوا ہے حالانکہ ریاستی رہنما اصولوں میں سول کوڈ مشترکہ ہے لیکن آزادی کے بعد سے آنے والی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے اس سوال کو نظرانداز کرنے کی کوشش کی۔
مودی کی حکومت بھی ایسا ہی کرے گی لیکن یہ اس مسئلے کا حل نہیں۔ تین طلاقوں کا معاملہ جلد یا بدیر حل کیا جانا چاہیے‘ سپریم کورٹ نے واضح کر دیا ہے کہ اس ضمن میں آئین کی تشریح کس طرح کی جانی چاہیے۔جہاں تک میرا خیال ہے تو مجھے لگتا ہے کہ مسلمانوں کو سخت گیر عناصر اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کرتے ہیں اور بدقسمتی سے سیاست بھی انھی کا ساتھ دیتی ہے۔ حکمران بی جے پی کی نظر میں 2019ء میں منعقد ہونے والے عام انتخابات پر لگی ہیں لہٰذا کوشش یہ کی جانی چاہیے کہ اجتماعیت کی فضا کو کسی قیمت پر خراب نہ کیا جائے۔ سپریم کورٹ کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ جمہوریت اور سیکولر ازم کا بول بالا ہو۔