لاہور: حکومت پاکستان کے مطابق تقریبا سات ملین (ستر لاکھ) پاکستانی افراد بیرون ملک مقیم ہیں، ان میں اکثریت مشرق وسطی، یورپ اور شمالی امریکا میں ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی طرف سے وطن بھیجی جانے والی ترسیلات زر قریبا 20ارب ڈالر ہیں۔ پاکستان وطن بھیجی جانے والی ترسیلات زر کے لحاظ سے
نامور کالم نگار طیبہ ضیاء اپنے کالم میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔ دنیا میں دسویں درجہ پر ہے۔پاکستانی تارکین وطن نوکری یا تجارت تو پردیس میں کرتے ہیں مگر اپنی آمدنی کا ایک حصہ پاکستان ضرور بھیجتے ہیں۔ ان ترسیلات زر سے پاکستان کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملتا ہے۔ نوے فیصد اوورسیز پاکستانی عمران خان کے فین ہیں ، ووٹر ہیں۔ عمران خان اب وزیر اعظم بن چکے ہیں۔تارکین وطن جنہیں اوورسیز پاکستانی کہا جاتا ہے اپنی آواز کے لئے وزیر اعظم ہاﺅس میں ایک پلیٹ فارم چاہتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں کی میتیں تو وطن آجاتی ہیں لیکن زندگی میں انہیں وطن لوٹنے کا موقع مہیا نہیں کیا جاتا۔ وزیر اعظم عمران خان اوورسیز پاکستانیوں کے ہنر اور تجربہ سے فائدہ اٹھائیں اور انہیں وطن لوٹنے کے مواقع میسر کریں۔وزیر اعظم کہتے ہیں کہ پاکستانی اپنی قومی ائیر لائن پر سفر کیا کریں۔ شاید جانتے نہیں کہ امریکہ سے پی آئی اے پروازیں بند ہو چکی ہیں۔ پاکستانیوں کی میت قومی ائیر لائن پر فری لے جائی جاتی تھیں ، پاکستانیوں کو اس سہولت سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔نو منتخب وزیر اعظم عمران خان بھی اپنے اطراف خوشامدی صحافیوں کا جھرمٹ پسند کرتے ہیں۔ بنی گالہ کے ٹیرس کی کرسیوں پر وہی کالم نگار اور اینکرز تشریف فرما ہو تے ہیں
جو خان صاحب کی گڈ بک میں ہیں۔ عمران خان بحیثیت وزیر اعظم ناقدین کی بھی سنا اور پڑھا کریں۔ اکثر ناقدین ہمدرد ہوتے ہیں جبکہ خوشامد میٹھا زہر ہے جو دھیرے دھیرے اپنا اثر دکھاتا ہے۔ ایک شخص نے حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بہت زیادہ تعریف کی حالانکہ وہ آپ سے عقیدت و ارادت نہ رکھتا تھا، تو آپ نے فرمایا جو تمہاری زبان پر ہے میں اس سے کم ہوں اور جو تمہارے دل میں ہے اس سے زیادہ ہوں۔۔۔۔ تعریف اور خوشامد انسان کی کمزوری ہے لیکن اس کی بھی حدمتعین ہے۔ اتنا جھوٹ نہ بولا جائے کہ جس کی خوشامد کی جائے وہ خود شرمسار ہو جائے۔ سیاستدانوں کو قطعی پسند نہیں کہ ان کی کمزوریوں اور خامیوں کو چیلنج کیا جائے یا ان کے اندر کی باتیں باہر لائی جائیں۔ یہ بات تو کسی کو بھی پسند نہیں لیکن سیاستدان عوام کے نمائندے ہیں اور عوام کی عدالت میں چوبیس گھنٹے بارہ مہینے پیش ہونا پڑتا ہے اور ہونا پڑے گا۔ جو جن کا کھائے اسی کی بانسری بجائے۔ ایک مرتبہ نواز شریف کے ہمدرد ایک معروف کالم نگار نے ہمیں کہا کہ آپ جس کے خلاف چاہیں تلوار چلا سکتی ہیں کیوں کہ آپ کو ”کچن“ نہیں چلانا۔۔۔عجیب بات ہے کہ جن لوگوں کا کچن حکمرانوں کی خوشامد پر چلتا ہے
وہ حکمرانوں کی خوشامد کرتے کرتے مر جاتے ہیں لیکن سچ نہیں بولتے۔ جبکہ زمینی حقائق اور ملکی مفاد اس کے متضاد مطالبہ کرتے ہیں۔ ایک دوسرے معروف کالم نگار نے ہمیں کہا کہ آپ خود کو اوورسیز پاکستانی مت کہیں اوورسیز پاکستانی مزدور لوگ ہوتے ہیں اور آپ امریکہ میں سیٹ ہیں۔ جگت بازی لکھتے لکھتے اس شخص کی سوچ بھی جگتی ہوگئی ہے۔ کیا مضحکہ خیز نقطہ بیان فرمایا کہ جو پاکستانی بیرون ملک سیٹ ہیں وہ اوورسیز نہیں البتہ جو مزدور ہیں وہ اوورسیز پاکستانی ہیں۔ مزدوروں کے کھڈے نما کمرے میں مہمان بنتے ہوئے ان نواب زادوں کی جان جاتی ہے۔ اوورسیز پاکستانی جو ہر سال بیس بلین ڈالر زر مبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں برسوں شب و روز کی محنت و مشقت کے بعد کہیں سیٹ ہوتے ہیں اور خوشامدی اپنے لفظوں سے گھر بیٹھے امیر کبیر ہو جاتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانی غیر ملکوں کا حلف لیتے ہیں اور خوشامدی طبقہ کرپٹ سیاستدانوں کی وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے۔ اوورسیز پاکستانی اپنی محنت و مشقت کے رزق حلال سے پیچھے وطن کو بھی پالتے ہیں جبکہ ملک کا یہ خوشامدی طبقہ درباری وظیفوں پر عیش کرتاہے۔ اوورسیز میں پاکستانیوں کے مہمان بن کر خوب مہمان نوازی اور مفت خوری کے بعد ایک ادھ کالم میں ان بیچارے اوورسیز میزبانوں کا ذکر کر کے ان کی مہمان نوازی کا احسان اتار دیتے ہیں۔ ایسے ہی ایک میزبان نے بتایا کہ فلاں معروف صحافی ہمارے ہاں مہمان ٹھہرے اور کہنے لگے
فیملی کے لئے کچھ شاپنگ کرنا ہے۔ میزبان لے گئے۔کالم نگار نے دو ہزار ڈالر کی شاپنگ کی۔ پتلون کی جیب سے بٹوہ نکالا اور کہا کیش نہیں ہے دیکھتا ہوں اگر میرا کریڈٹ کارڈ چل جائے۔ میزبان نے مروت میں کہا رہنے دیں سر میں ادائیگی کردیتا ہوں۔ نہیں نہیں برا لگتا ہے لیکن وہی ہوا جو معروف صحافی اور سیاستدان ہمیشہ میزبانوں کے ساتھ کرتے ہیں۔ میزبان بھی بھولے نہیں وہ بھی مروت و محبت میں نہیں دو جملے لکھوانے یا کہلوانے کے لئے آﺅ بھگت کرتے ہیں۔ مفاد پرستی کا یہ معیار کہ منہ پر قصیدہ گوئی کرتے ان لوگوں کو شرم بھی نہیں آتی۔ وطن عزیز میں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا دم بھرنے والوں کی کمی نہیں۔نو منتخب وزیر اعظم عمران خان پچھلی حکومت کے خوشامدی کلچر سے بخوبی واقف ہیں۔ زمینی حقائق کا سامنا کریں۔ غلط فیصلوں کی ذمہ داری وزیر اعظم پر لاگو ہو گی۔ اوور سیز پاکستانیوں کی آواز کو خاص اہمیت دی جائے۔ پاکستان کا قانون اس قدر شفاف اور مضبوط ہو جائے کہ اندرون بیرون ملک پاکستانیوں کے مسائل یکساں طور پر حل ہو سکیں ،اوورسیز پنجاب کمیشن میاں شہباز شریف کی اچھی کاوش تھی۔ اسے جاری رہنا چاہئے اور اس میں ایماندار محنتی عملہ کو کام جاری رکھنے کی اجازت دی جائے۔ البتہ کرپٹ اور دو نمبر لوگ کسی بھی شعبے اور محکمے میں قابل قبول نہیں۔ اوور سیز پاکستانیوں کے مسائل اور مطالبات کے لئے ادارہ ہی نہیں سرکاری میڈیا بھی استعمال کیا جائے۔ وزیر اطلاعات نے سرکاری ٹی وی پر انٹر ٹین منٹ کے پروگراموں میں اضافہ کی بات تو کی لیکن تارکین وطن کے لئے خصوصی پروگراموں شروع کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا ؟ زر مبادلہ بھیجنے کے علاوہ بھی اوورسیز پاکستانیوں کی اہمیت ہونی چاہئے۔تارکین وطن کے جذبات شکایات اور مشوروں کے لئے وزیر اعظم ہاﺅس میں خصوصی ڈیسک مہیا کیا جائے تا کہ تارکین وطن اور ان کے وزیر اعظم میں رابطہ قائم ہوسکے۔