آئی ایم ایف پر زیادہ تنقید کرنے والی پیپلز پارٹی کی قیادت کو ڈاکٹر رضا باقر کے حوالے سے پچھلے کالم میں آئینہ دکھا دیا تھا۔ اب ایک اور تصویر سامنے آگئی ہے۔ اس تصویر میں (ن) لیگ کی مرکزی قیادت بلاول بھٹو زرداری کے ہاں حاضری لگوا رہی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام پر (ن) لیگ بھی تنقید کرتی ہے مگر انہیں یہ یاد نہیں رہتا کہ انہوں نے 2014 سے 2017 تک جس اشرف وتھرا کو اسٹیٹ بینک کا گورنر بنایا تھا، وہ آئی ایم ایف کے ممبر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تھے، پھر مفتاح اسمٰعیل بھی کسی نہ کسی شکل میں آئی ایم ایف کے ساتھ رہے۔ چلو آج آپ کو آئی ایم ایف کی کہانی بھی سنا ہی دیتے ہیں۔ پاکستان پہلی بار آئی ایم ایف کے پاس 1958 میں گیا، اس وقت ڈالر تین روپے کا تھا۔ بھٹو دور میں بھی بیرونی قرضہ لیا گیا مگر بہت کم۔ ضیاء دور میں دو ارب ڈالر لئے گئے مگر یہ اُسی دور میں واپس کردئیے گئے۔ 1988 میں جمہوریت کا سنہری دور شروع ہوا تو ڈالر صرف ا ٹھارہ روپے کا تھا۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے پہلے دور حکومت میں عالمی مالیاتی اداروں سے قرضوں کے دو پروگرام لئے گئے مگر یہ قرضے واپس نہ ہوسکے۔ نومبر 1990 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کے پہلے دور میں ایک ارب ڈالر کا قرضہ لیا گیا۔ 1994 میں پھر محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے دوسرے دور میں آئی ایم ایف، ایشیائی ترقیاتی بینک اور عالمی بینک سے قرضوں کے تین پروگرام لئے گئے۔ اس کے بعد نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ دور بارہ اکتوبر 1999 کو ختم ہوگیا مگر یہ دور قرضوں کا حجم 39 ارب ڈالر تک پہنچا گیا۔ اب پاکستان سود کی ادائیگی کے قابل بھی نہیں تھا۔ دیوالیہ ہونے کے قریب تھا کہ مشرف کی فوجی حکومت کے باعث پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگ گئیں۔ یہ مشرف کی قسمت تھی کہ 9/11 ہوگیا، امریکہ کو پاکستان کی ضرورت پڑ گئی، ضرورت کے ان لمحات میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں ختم کردی گئیں، اسی دوران مشرف نے پیرس کلب کے ساتھ ایک معاہدہ کیا۔ قرضوں کی ری شیڈولنگ ہوگئی اور پاکستان دیوالیہ ہونے سے بچ گیا۔ جب پرویز مشرف کا دور ختم ہوا تو قرضوں کا حجم کم ہو کر 34 ارب ڈالر رہ گیا تھا۔ مشرف نے جس روز حکومت سنبھالی تھی ڈالر 52 روپے کا تھا پھر اگلے نو سال ڈالر 52 سے 60 کے درمیان رہا۔ گویا مشرف دور میں کرنسی مستحکم رہی۔ 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی، انہوں نے آتے ہی 7.2 ارب ڈالر کا قرضہ لیا، پانچ سالہ دور میں قرضہ 34 ارب ڈالر سے 59 ارب ڈالر تک پہنچ گیا۔ 2013 میں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ کا تیسرا دور شروع ہوا۔ اس دور میں عالمی مالیاتی اداروں سے اتنے قرضے لئے گئے کہ پاکستان کا قرضہ 59 ارب ڈالر سے 93 ارب ڈالر ہوگیا۔ اس دور میں سکوک بانڈ کا کھیل بھی رچایا گیا، موٹر وے اور ریڈیو پاکستان سمیت اہم عمارتیں گروی رکھ دی گئیں۔ قرضوں کی کہانی میں سب سے خطرناک موڑ گزشتہ دس سالوں میں آیا جب ملک پر پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کی حکومتیں تھیں۔ ان دس سالوں میں 59 ارب ڈالر کا ریکارڈ قرضہ لیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ کو قرضوں کے آئینے میں دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ 60 برسوں میں 34 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا مگر آخری دس برسوں میں 59 ارب ڈالر قرضہ لیا گیا۔
2018کے الیکشن میں پاکستانی عوام نے تبدیلی کے نام پر پی ٹی آئی کو ووٹ دیا۔ پی ٹی آئی کی حکومت تو بن گئی مگر قرضوں کا ایک پہاڑ اس کے سامنے تھا، ملک کو مقروض ترین بنانے والا اسحٰق ڈار مفرور ہوچکا تھا، اسے بھگانے میں ایک باریش وزیراعظم نے کردار ادا کیا۔ ایک مشکل ترین دور میں عمران خان نے ایک نالائق ترین کے حوالے وزارت خزانہ کردی۔ عمران خان کو اب بھی اس بات کا پچھتاوا ہے کہ انہیں ان کے چہیتے نے مزید مشکلات کا شکار کیا۔ عمران خان کو مجبوراً ڈاکٹر حفیظ شیخ کو قبول کرنا پڑا۔ جیکب آباد سندھ سے تعلق رکھنے والے دھیمے مزاج کے ڈاکٹر حفیظ شیخ آئی ایم ایف سے کامیاب مذاکرات کر چکے ہیں، نئے معاہدے کی شرائط طے پاچکی ہیں، پاکستان کو آئی ایم ایف سے تین سالوں میں چھ ارب ڈالرز مل جائیں گے، ایشیائی ترقیاتی بینک سے بھی دو سے تین ارب ڈالرز مل جائیں گے۔ اسد عمر کے ہوتے ہوئے تو مذاکرات کی ناکامی یقینی تھی، حفیظ شیخ نے اتنا تو کیا کہ قرض لے کر دے دیا، ان کا اگلا ہدف ایف ا ے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنا ہے، ڈاکٹر حفیظ شیخ اس میں بھی کامیاب ہو جائیں گے۔ کٹھن سفر میں قرض تو لے لیا گیا ہے مگر اب قرض کے ساتھ کھلواڑ نہیں ہوگا، یہ قرض پاکستان ہی کے کام آئے گا۔ اس قرض سے حکمرانوں کے بیرونی دنیا میں محلات نہیں بنیں گے۔ اس دور میں ان پچیس ماڈلز کی جادوگری بھی نہیں چلے گی جن کے امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، سوئٹرز لینڈ، سنگا پور اور نیوزی لینڈ میں فارن کرنسی اکائونٹس ہیں، جنہوں نے اپنے ایسے پیشے لکھوا رکھے ہیں جن پر ٹیکس بہت کم ہوتا ہے۔ اب منی لانڈرنگ کا گھنائونا کھیل نہیں ہوگا اور نہ ہی اسحٰق ڈار جیسا وزیر خزانہ آنے والوں کے لئے معاشی بارودی سرنگیں بچھائے گا۔
عہد گزشتہ میں ایک طرف کرپشن اور منی لانڈرنگ ہوئی تو دوسری طرف انڈسٹری کا بیڑا غرق کردیا گیا۔ گزشتہ دور میں اداروں کی بربادیوں کی بھی طویل داستان ہے، اسی لئے تو جب ایک ٹی وی پروگرام میں ندیم افضل چن انتہائی سنجیدگی سے پوچھتے ہیں کہ ’’اچھا کوئی ایک ادارہ بتا دیں جو آپ نے نفع بخش چھوڑا ہو؟‘‘ اس سادہ سے سوال پر (ن) لیگ کے محسن شاہنواز رانجھا پر لمبی خاموشی طاری ہوجاتی ہے۔ واقعتاً (ن) لیگ نے سب اداروں کو خسارے میں دھکیل دیا تھا۔
دوستو! گھبرانے کی ضرورت نہیں، اس سے بھی مشکل وقت قوموں پر آجاتے ہیں۔ ترکی کا بھی یہی حال تھا ،آج ترکی دنیا کی 17ویں بڑی معیشت ہے۔
یہ مانا کہ پاکستان پر قرضہ ہے، یہ مانا کہ ڈالر ایک سو چالیس روپے کا ہے، یہ بھی مان لیا کہ ہمارے پاس 8 ارب ڈالرز کا زرمبادلہ ہے، یہ بھی مان لیا کہ ہمارے سارے ادارے خسارے میں ہیں مگر یاد رہے کہ ہمارا پی آئی اے جو گزشتہ تیس سالوں سے خسارے میں تھا، خسارے سے نکل آیا ہے، این ایچ اے اور پوسٹل سروسز نے منافع دینا شروع کردیا ہے، ریلوے کو شیخ رشید بہتری کی لائن پر لے آئے ہیں، ہمارے ہاں بیرونی سرمایہ کاری آرہی ہے، کسی ایک سیکٹر میں نہیں، کئی سیکٹرز میں۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت پاکستان کو اہم بنائے رکھتی ہے۔ مشکل وقت ہے، کٹھن سفر ہے مگر یہ گزر جائے گا، اچھے دن آئیں گے، کٹھن راستے پر سرور ارمان کا شعر یاد آگیا ہے کہ ؎
بہت دشوار ہے کرنا تعین اس کی شدت کا
ترازو میں جو رکھی جائے نفرت بھی، محبت بھی