counter easy hit

زندگی کی آخری شرط

ایبٹ آباد کوہالہ کے تفریحی مقام پر دوستوں نے موبائل فون اور 15 ہزار روپے دینے کی شرط پر دوست کو تیر کر دریا عبور کرنے پر اکسایا اور گوجرانولہ کا علی ابرار اپنے ماں پاب بہن بھائیوں کو تمام عمر کا دکھ  دے کر اس دنیا سے چلا گیا۔ شرط بھی کتنی؟ ایک موبائل اور پندرہ ہزار روپے۔ یہ قیمت ہے ایک انسانی جان کی  اس کی ماں کو پتہ ہوتا تو وہ اپنا تمام زیور بیچ کر اسے یہ سب کچھ لے دیتی۔ باپ کو پتہ چلتا تو اپنے آپ کو بھی بیچ کر اس کے لئے ایسے دس موبائل خرید دیتا۔ بھائی بہن اپنا سب کچھ نچھاور کر کے بھی اس کی جان بچا لیتے۔ لیکن نجانے ہم پاکستانیوں کا مائنڈ سیٹ کیسے بن چکا ہے کہ ہم  چند ہزار بلکہ چند سو روپے کے پیچھے اپنی جان تک کی پرواہ نہیں کرتے۔ ابھی چند ماہ نہیں گزرے جب احمد پور شرقیہ میں دو سو لوگوں نے اسی لالچ میں اپنی جان دے دی۔ اسی طرح کے بے شمار واقعات ہم روزانہ دیکھتے ہیں جب یہ نوجوان معمولی شرط جیتنے کے لئے اپنی جان کو خطرے مین ڈال لیتے ہیں۔ آج ہم انہی واقعات کی وجوہات معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ایک تو یہ کہ ہمارے ہاں خواندگی کی شرح بہت کم ہے اور اس پر مزید یہ کہ ہمارے تعلیمی نظام میں ایسا کوئی سبجیکٹ نہیں جو فرد میں شعور پیدا کر سکے کہ وہ خود اس کا احساس کرے کہ وہ جو کچھ کرنے جا رہا ہے اس کا کیا نقصان ہو سکتا ہے۔ لوگ کسی اتائی ڈاکٹر یا دندان ساز کے پاس جاتے ہیں اور علاج کی بجائے کوئی نیا مرض لگوا کر آ جاتے ہیں۔ بات تعلیم کی ہو رہی تھی تو ہمارے ہاں ایک تعلیم تو وہ ہے جو تعلیمی اداروں میں دی جاتی ہے۔ اس میں بھی سوائے رٹے اور گریڈنگ کے آگے نہیں جایا جاتا۔ اور دوسری وہ ہے جو کہ گھر گلی اورمحلے سے شروع ہوتی ہے۔ یہاں سے ہی شرطیں لگانا، ایک دوسرے کو نیچا دکھانا، اپنی ناک اونچی رکھنا جیسے تصورات بچے کے ذہن میں ڈالے جاتے ہیں۔ جو کہ آگے جا کر اس کی کی شخصیت کو ایسا بنا دیتے ہیں کہ وہ کوئی کام نہ  چاہتے ہوئے بھی کر بیٹھتا ہے۔

اس کو سمجھنے کے لئے آپ کو ایک اور واقعہ سناتا ہوں۔ ایک محلے کے دو لڑکے گلی میں کھڑے تھے۔ یہ گلی کوئی پانچ چھ فٹ چوڑی ہوگی۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کا ایک محلےدار لڑکا اپنے گھر کی چھت پڑ کھڑا ہے۔ دونوں کو شرارت سوجھی اور انہوں نے مذاق ہی مذاق میں کہنا شروع کر دیا کہ تم بہت ہی بزدل ہوگے اگر اپنی چھت سے دوسرے گھر کی چھت پر چھلانگ نہ لگاؤ۔ جب کافی دیر تک وہ اس لڑکے کو تنگ کرتے رہے تو اچانک غصہ میں آ کر لڑکے نے چھلانگ لگا دی۔ خوش قسمتی سے وہ دوسری چھت پر پہنچ گیا کیونکہ دونون چھتوں کی دیواریں نہیں تھیں اور درمیانی فاصلہ بھی زیادہ نہ تھا۔

ایسی ہی صورتحال ابرار علی کے کیس میں بھی ہوئی ہوگی کہ پہلے بات مذاق میں شروع ہوئی ہوگی کہ کیا کوئی اس دریا کو تیر کر دوسرے کنارے تک جا سکتا ہے۔ ابرار علی نے کہا ہوگا کہ ہاں میں جا سکتا ہوں۔ اس پر بجائے دوست اس کو سمجھانے کے بات کو اور ہوا دینے لگے ہوں گے۔ اچھا تو پھر لگاؤ شرط، کسی نے ہلکے سے یہ بھی کہا ہوگا لو بھئی آج پتہ لگ جائے گا کہ کتنے پانی میں ہے۔ کسی تیسرے دوست نے لقمہ دیا ہوگا نہیں یار اس میں اتنی ہمت کہاں؟ بات شرط تک پہنچی ہوگی کتنے کی ہو، کسی نے کہا ہوگا کہ چلو یہ موبائل تمہارا۔ دوسروں نے کہا ہوگا کہ ہم اتنے پیسے دیں گے۔ غرض بات پیچھے موڑنے کی بجائے آگے ہی بڑھتی چلی گئی ہوگی اور آخر کار وہ جا دریا کے کنارے کھڑا ہوا ہوگا۔

علی ابرار کے دریا میں چھلانگ لگانے والی ویڈیو بھی آپ نے سوشل میڈیا پر دیکھی ہوگی۔ یہ بھی دیکھا ہوگا کہ کیسے اس نوجوان کو اکسایا جارہا ہے کہ وہ چھلانگ لگا دے۔ ایک دفعہ ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنا رادہ ترک کرنے لگا ہے لیکن دوست پھر اس پر ہنستے ہیں اور وہ شرمندگی سے بچنے کے لئے آخر کار چھلانگ لگا ہی دیتا ہے۔ بالکل ویسے ہی جیسے میں نے ایک اور واقعہ اوپر بیان کیا کہ کیسے ایک لڑکے نے محلے کے دو لڑکوں کے مذاق میں آ کراپنی چھت سے دوسری چھت پر چلانگ لگا دی۔

دراصل ایک انجانا سا خوف ان دونوں واقعات میں ان نوجوانوں کو اس قسم کے خطرناک حرکت کرنے پر مجبور کرتا نظر آتا ہے۔ جی ہاں، بزدل نہ کہلانے خوف۔ اپنی بہادری اور جوانمردی کی نمائش کا شوق۔ اسی ویڈیو میں آپ نے یہ بھی دیکھا ہوگا کہ وہاں دوسرے لوگ بھی موجود ہیں لیکن کوئی ان کو منع کرنے کوشش نہیں کر رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک معاشرتی بے حسی پیدا ہوچکی ہے۔ یہ معاشرتی بے حسی آپ کو احمدپور شرقیہ والے واقعہ سے لیکر ابرار علی کے دریا میں چھلانگ لگانے تک ہر ایسے واقعے میں نظر آئے گی۔ اور نوجوانوں کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اگر آپ شرط لگانے ہی جا رہے ہیں تو ایک دفعہ اتنا ضرور سوچ لیں کہ کہیں یہ آپ کی زندگی کی آخری شرط تو نہیں۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website