’’اس معاشرے میں بر داشت ختم ہوتی جا رہی ہے، چھوٹے چھوٹے اختلاف پر کفر اور غداری کے الزامات لگانا معمول بن چکا ہے لہٰذا الفاظ کے استعمال میں احتیاط کرو‘‘۔ یہ مشورہ شفیق مرزا صاحب نے کچھ عرصہ قبل مجھے ٹیلیفون پر دیا۔ شفیق مرزا صاحب ایک طویل عرصے سے روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحے سے وابستہ تھے۔ کالم لکھنے میں تاخیر ہو جاتی تو عام طور پر مرزا صاحب یا انور قدوائی صاحب کا فون آ جاتا۔ کبھی کبھی کسی اہم تاریخی حوالے کی مزید تصدیق کیلئے شفیق مرزا صاحب لاہور سے فون کرتے اور اس بہانے ان کی خیر خیریت بھی معلوم ہو جاتی۔ چند دن پہلے ان کی اچانک وفات کی خبر ملی تو یقین نہ آیا۔ فون پر ادارتی صفحے کے نگران سہیل وڑائچ صاحب سے تصدیق کی تو پتہ چلا کہ شفیق مرزا صاحب اپنا کام ختم کر کے روزنامہ جنگ لاہور کے دفتر سے واپس گھر جانے کیلئے نکلے کہ سڑک پر کسی موٹر سائیکل سوار نے ٹکر مار دی۔ مرزا صاحب کے سر پر چوٹ آئی اور وہ بے ہوش ہو گئے۔ انہیں ہاسپیٹل لے جایا گیا جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے اور اگلے جہاں کو سدھار گئے۔ ان کی وفات پر کوئی بریکنگ نیوز نشر ہوئی نہ کوئی بڑی خبر شائع ہوئی البتہ انور قدوائی صاحب، استاد محترم مجاہد منصوری صاحب اور عطاء الحق قاسمی صاحب نے اپنے کالموں کے ذریعہ دنیا کو بتایا کہ ایک بہت بڑا صحافی اس جہان فانی سے کوچ کر گیا۔ میں بھی شفیق مرزا صاحب کے بارے میں یہ سطور اس حقیقت کو سامنے لانے کیلئے لکھ رہا ہوں کہ ہر بڑا صحافی مشہور نہیں ہوتا۔ ہمارے اخبارات کے نیوز روموں میں اور ٹی وی چینلز کے دفاتر میں ایسے بہت سے صحافی موجود ہیں جن کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں اور قابلیت سے ان کے ساتھی تو واقف ہوتے ہیں لیکن عام ناظرین اور قارئین ان کے نام سے واقف نہیں ہوتے۔ شفیق مرزا صاحب بھی ایک ایسے ہی صحافی تھے۔ بہت سال پہلے جب میں روزنامہ جنگ لاہور کے نیوز روم میں سب ایڈیٹر کے طور پر آیا تو شفیق مرزا اور ایم طفیل صاحب کو ایک کونے میں ادارتی صفحہ مرتب کراتے دیکھا کرتا۔ پھر مجھے نیوز روم سے میگزین سیکشن، وہاں سے رپورٹنگ سیکشن اور ایک دن ادارتی صفحے پر بھیج دیا گیا۔ میرا کام اہم سیاسی و علمی شخصیات سے گفتگو کر کے ان کے خیالات کو لکھنا اور پھر ان کی منظوری سے ان کے نام سے تحریر کو شائع کرنا ہوتا۔ میں گفتگو کو تحریری شکل دیکر شفیق مرزا صاحب کے حوالے کرتا۔ وہ تحریر کی نوک پلک سنوارتے اور کوئی اچھا سا عنوان دے کر شائع کر دیتے۔ مرزا صاحب مجھے کہا کرتے کہ فی الحال تم گھوسٹ رائٹر ہو لیکن اسے اپنی ٹریننگ سمجھو اور محنت سے کام کیا کرو۔ کچھ عرصے کے بعد مجھے واپس رپورٹنگ سیکشن میں بھیج دیا گیا لیکن مرزا صاحب کے ساتھ میرا تعلق برقر ار رہا۔ میں انہیں علم کا خاموش سمندر کہا کرتا۔ ان کے مزاج میں درویشی تھی۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہوتی ہے لیکن جب پتہ چلا کہ وہ دفتر سے پیدل نکلے اور رکشے کی تلاش میں سڑک کے کنارے ایک موٹر سائیکل سوار کی ٹکر کا شکار ہو گئے تو مجھے ایسے لگا کہ ان کی موت کا ذمہ دار ایک موٹر سائیکل والا نہیں بلکہ مجھ سمیت پورا معاشرہ ہے۔ جس سڑک پر حادثہ ہوا س سڑک پر فٹ پاتھ نام کی کوئی شے نہیں۔ ہمارے ہاں امیر لوگوں کی گاڑیوں کیلئے سڑکیں بن جاتی ہیں لیکن شفیق مرزا جیسے درویشوں کیلئے فٹ پاتھ نہیں بنایا جاتا۔
شفیق مرزا صاحب دنیا میں نہیں رہے تو مجھے ان کے ساتھ گزارے ہوئے بہت سے لمحات یاد آ رہے ہیں۔ ان کا آخری مشورہ یاد آ رہا ہے جس میں انہوں نے احتیاط کیلئے کہا تھا۔ یہ کیسا معاشرہ ہے جہاں اپنے سے چھوٹوں کو ہر وقت احتیاط کا مشورہ دینے والا ایک بزرگ کسی گمنام موٹر سائیکل سوار کی بے احتیاطی کے باعث موت کے اندھیرے کنویں میں جا گرا۔ مرزا صاحب کے مشورے کے عین مطابق میں بدستور احتیاط سے کام لے رہا ہوں۔ صحافت اور اہل صحافت کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات کی تفصیل میں نہیں جائوں گا صرف سرسری سا ذکر کروں گا۔ مجھے اہل صحافت سے صرف اتنی گزارش کرنی ہے کہ شفیق مرزا اور اظہر جعفری جیسے صحافیوں کی نسل تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے آمریت کے اندھیروں میں اپنے قلم اور کیمرے سے جمہوریت اور آزادی اظہار کی شمع کو روشن رکھا۔ ان بزرگوں نے مجھ جیسے غیر محتاط صحافی کی انگلی پکڑی اور احتیاط سے آگے بڑھنے کا مشورہ دیا۔ میں خوش قسمت تھا۔ جب بھی میں نے کہیں ٹھوکر کھائی اور ڈگمگایا تو کسی شفیق مرزا نے پیچھے سے آواز دے کر رہنمائی کی۔ ان بے لوث اور بے غرض بزرگوں کے کردار کو سامنے رکھتے ہوئے جب میں اپنے ارد گرد نظر دوڑاتا ہوں تو مجھے ایسے ہم عصر بہت کم نظر آتے ہیں جو نوجوانوں کیلئے مشعل راہ ہیں یا انکی درست رہنمائی کر رہے ہیں۔ اب صحافت کی جگہ میڈیا کا نام لیا جاتا ہے۔ صحافی کی بجائے اینکر کو سب کچھ سمجھا جاتا ہے حالانکہ بہت سے اینکر اپنے آپ کو صحافی کہلوانا پسند نہیں کرتے۔ پاکستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں چلے جائیں۔ میڈیا اسٹڈیز کے طلبہ و طالبات کی اکثریت ٹی وی اینکر تو بننا چاہتی ہے لیکن کسی کو صحافی بننے کا شوق نہیں۔ آج میں چیخ چیخ کر ان طلبہ و طالبات کو بتانا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے نثار عثمانی، احمد بشیر، حسین نقی، مظفر محمد علی اور شفیق مرزا جیسے صحافیوں کی رہنمائی نصیب نہ ہوتی، اگر منو بھائی، نذیر ناجی، عطاء الحق قاسمی اور عبدالقادر حسن جیسے بزرگ میری حوصلہ افزائی نہ کرتے تو میں کچھ بھی نہ ہوتا۔ میں نےبطور صحافی اپنا کیریئر شروع کیا تھا اور آج تک اپنے آپ کو صرف ایک صحافی سمجھتا ہوں۔ ہاں میں ٹی وی اینکر بھی ہوں لیکن میں ہمیشہ ٹی وی اینکر نہیں رہوں گا البتہ صحافت کے ساتھ میرا رشتہ ہمیشہ برقرار رہے گا۔ اہل صحافت کو اپنی بچی کھچی صحافتی روایات بچانے کیلئے سرجوڑ کر سوچنے کی ضرورت ہے۔ کچھ لوگوں نے صحافت کو اپنے کاروباری مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ یہ لوگ صحافت کی آزادی کیلئے بہت بڑا خطرہ بن چکے ہیں۔ ان لوگوں کی وجہ سے میڈیا کے اداروں میں محنت اور قابلیت میرٹ نہیں رہا۔ طاقتور لوگوں سے تعلقات میرٹ بن چکا ہے۔ صحافت کی آزادی کو اندر سے بھی خطرہ ہے اور باہر سے بھی خطرہ ہے۔ ان خطرات کے بارے میں اس ناچیز نے 25 اپریل 2016ء کو ’’نہیں وزیر اعظم صاحب نہیں‘‘ کے نام سے کالم میں پوری تفصیل لکھی تھی۔ وزیر اعظم نواز شریف نے 22 اپریل کو قوم سے خطاب میں پاکستان کے میڈیا کو آزاد قرار دیا تھا۔ میں نے گزارش کی تھی کہ وزیر اعظم صاحب ناں تو آپ آ زاد ہیں ناں ہی میڈیا آزاد ہے۔ ان دنوں بحث چل رہی تھی کہ وزیر اعظم صاحب نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو مدت ملازمت میں توسیع کی پیشکش کی لیکن انہوں نے ٹھکرا دیا۔ خاکسار نے اس دعوے کو غلط قرار دیتے ہوئے 25اپریل کے کالم میں لکھا تھا ’’وزیر اعظم صاحب! آپ ہی بتا دیں کہ کیا آپ نے کبھی کسی کو توسیع کی پیشکش کی یا کسی نے آپ سے توسیع مانگی تھی؟ اگر توسیع مانگی تھی تو وہاں کون کون موجود تھا؟ اگر آپ اس سوال کا جواب نہیں دے سکتے اور میں بہت کچھ جانتے ہوئے بھی سچ نہیں لکھ سکتا تو آپ اپنی تقریروں میں پاکستان کے میڈیا کو آزاد کیوں قرار دیتے ہیں؟‘‘
پچھلے تین سال سے پاکستان میں صحافت کی آزادی چاروں اطراف سے حملوں کی زد میں ہے حالت یہ ہے کہ اوکاڑہ کا ایک صحافی حافظ حسنین رضا کئی ماہ سے جعلی مقدمات میں گرفتار ہے۔ اور اہل صحافت خاموش ہیں۔ نئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سی جے سی ایس جنرل زبیر کیخلاف جولائی سے بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جا رہا تھا لیکن فی الحال کچھ بولنا خطرے سے خالی نہیں۔ میڈیا کو بہت طاقتور سمجھا جاتا ہے لیکن کارکن صحافی غیر اعلانیہ سنسر شپ کی زد میں ہیں۔ دعا کریں کہ آنے والے سال پچھلے کچھ سالوں جیسے نہ ہوں اور مجھے شفیق مرزا صاحب کا آخری مشورہ بار بار یاد نہ آئے اور سچ لکھنے کیلئے صحافت کی بجائے کتاب کا سہارا نہ لینا پڑے۔