لاہور (ویب ڈیسک)اپوزیشن اتحادکے لیے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا فضل الرحمان کی کوششوں پر ضیا شاہد نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مولانا فضل الرحمان کی کوششیں کامیاب ہوئی ہیں۔ نواز شریف کے خلاف آج دوسرا فیصلہ بھی آگیا ہے اورحدیبیہ کیس میں ایک طرح سے انہیں سرخرو کر دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ نے اتنی دیر کیوں لگائی ۔
سپریم کورٹ کی طرف سے تیسرا موقع ہے کہ نواز شریف کو کلین چٹ مل رہی ہے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ عنقریب وہ ملک سے باہر چلے جائیں گے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اصلی سیاست شہباز شریف کے پاس آگئی ہے۔ مولانا کی کوششیں یہ تھیں کہ نواز شریف کھل کر سامنے آئیں مگر نواز شریف انکی صاحبزادی اور کیپٹن ر صفدر مصلحتاً خاموش ہیں۔لگتا ہے کہ وہ باہر جانے کی تیاریوں میں ہیں اور شہباز شریف اور پنجاب میں حمزہ شہباز اپوزیشن کے مزے لوٹیں گے۔صرف ایک فیصلہ ہوا ہے جو نظر آرہاہے کہ نواز شریف خود براہ راست سیاست میں حصہ نہیں لیں گے۔ غالباً وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔سینئر صحافی نے کہا کہ این آر او ہوا یا نہیں جانے دیں مگر میں مستقبل میں نواز شریف کو پاکستان سے باہر دیکھ رہا ہوں۔آنےوالے 4 سال 10 مہینے شہباز شریف حرکت میں نظر آئیں گے۔نوازشریف نے اپنی وضاحت ضرور دی ہے کہ انہوں نے کوئی این آر او نہیں کیا لیکن انہوں نے سیاست ، سیاسیات میں مولانا فضل الرحمان کی خواہش کے مطابق نہ آصف علی زرداری سے ملاقات کی ہے نہ ان سے کوئی بات چیت کی ہے۔ حالانکہ وہ تینوں ایک ہی دن لاہور میں موجود تھے اور اخبار ات میں سرخیاں بھی شائع ہوئیں کہ اگلے 24 گھنٹے میں 3 بڑوں کی ملاقات ہوگی۔ مگر وہ ملاقات نہیں ہوئی۔ ہمیں اتفاق ہوا تھا اور ہم سی پی این ای کے وفد کے ساتھ بیگم کلثوم کی فاتحہ خوانی اور افسوس کے لیے گئے تھے۔میری موجودگی میں جماعت اسلامی کے نائب لیاقت بلوچ، سلمان بٹ ، ایک اخبار کے سینئر ایڈیٹر اور دیگر کئی لوگوں نے شہباز شریف کی سزا یابی پر اظہار خیال کیا اور
نواز شریف سے انکا خیال پوچھا۔ لیکن یقین جانیں جس جس نے بھی نواز شریف سے کوئی سیاسی سوال کیاانہوںنے جواب نہیں دیا اور خاموش رہے۔ تھوڑی دیر بعد نواز شریف ہاتھ اٹھا دیتے تھے اور وہاں بیٹھے ایک مولوی صاحب فاتحہ کے الفاظ دوبارہ دوہرانے لگتے تھے اور تمام لوگ دعا کرنے لگتے تھے کہ جس مقصد کے لیے وہ وہاں آئے تھے۔اب بھی معلوم ہوتا ہے نواز شریف نے اپنے ذاتی وضاحت کے طور پر بیان دیا ہے مگر انہوں نے اپوزیشن کیساتھ ملکراتحاد کرنے ، این آر او کے تحت باہر جانے یا نہ جانے کی کوئی بات نہیں کی۔نہ یہ کہ ملکر موجودہ حکومت کو گرانے کی کوشش کرنی چاہئے جیسا کہ مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں۔ ویسے مولانا زیادہ جلدی میں ہیں، حکومت کو آئے ابھی دو ماہ ہوئے ہیں۔ اگر وہ الیکشن کے دو ماہ بعد ہی تحریک عدم اعتمادلانے میں بھی کامیاب ہوگئے تو بڑی بات ہوگی۔اس قسم کے معاملات حکومتی مدت کے آدھے دور میں ہوتے ہیں۔سابق ڈپٹی پراسیکیوٹر نیب راجہ عامر عباس بھی ٹیلی فونک گفتگو میں شریک ہوئے ۔ ضیا شاہد کی جانب سے حدیبیہ پیپر ملز کے معاملے پر مستقبل کے نتائج کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کے دوران حدیبیہ کیس کی بات پر سابقہ چیئرمین نیب قمر الزمان چوہدری کو سپریم کورٹ میں بلایا گیا اور پوچھا گیا کہ لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے نیب کو کیس کی مزید تفتیش سے روکے جانے کے فیصلے کو نیب کی جانب سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیوں نہیں کیا گیا۔
جس پر قمر الزمان چوہدری نے کہا کہ میرے نذدیک اس کیس کی اپیل نہیں بنتی اور میں اسکو چیلنج نہیں کروں گا۔ 28 جولائی کو پھر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ نیب ایک 6 فٹ کے گہرے کھڈے میں دفن ہو چکی ہے۔ اسکے بعد حدیبیہ پیپر ملز کیس کی اپیل دائر ہوئی۔ اس کیس میں بہت سے شواہد ریکارڈ پر موجود تھے ، جسمیں اس وقت کے وزیر اسحاق ڈار نے بیان دیا تھا اور وہ وعدہ معاف گواہ بنے تھے۔انہوں نے تمام اکاﺅنٹ کی دستاویزات اکاﺅنٹ نمبرز اور چیکس کیساتھ بتا دیں کہ یہ چیزیں میں نے ان کے کہنے پر جعلی اکاﺅنٹس بنا کرباہر بھیجے جو لندن پارک ہوتے تھے اور لندن سے پیسہ واپس حدیبہ پیپر ملز کے اکاﺅنٹس میں آتا تھا۔ اسی حدیبیہ نے التوفیق بینک لندن میں پیسہ ایڈجسٹ کیا جس پر کیس بنا کہ انہوں نے یہ پیسہ لیا کہاں سے اور کس مد میں آیا۔ یہ تمام چیزیں ریکارڈ پر تھیں لیکن جب سپریم کورٹ میں اپیل چلی تو نیب پراسیکیوشن نے انتہائی سستی کا مظاہر کیا اور اسحاق ڈار کا 164 کا بیان بھی عدالت میںداخل نہیں کروایا۔ آج بھی نیب سے اسحاق ڈار کے اس بیان کے متعلق پوچھا کہ کیا بیان جمع کروایا گیا اور یہ بیان کیسے جرم سے منسلک ہوتا ہے۔ جس پر نیب نے کہا کہ ہم نے بیان داخل نہیں کیا آپ پرانے ریکارڈ سے چیک کر لیں۔جس پر کورٹ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپکا کیس ہے ، آپ نے بیان داخل نہیں کروایا اور ہمیں چیک کرنے کا کہہ رہے ہیں۔ کورٹ نے نیب سے بارہا پوچھا کہ جرم کیا بن رہا ہے اور وہ تکنیکی معاملات پرکیس خارج ہونے کی وجوہات پر لگے رہے۔ عدالت نے کہا کہ جرم کے حوالے سے عدالت کو مطنئن کیا جائے جس پر نیب ناکام رہی۔جس پر مجبوراً عدالت نے نظر ثانی کا کیس خارج کر دیااور نوٹس دینے کی بھی زحمت نہیں کی۔