لاہور (ویب ڈیسک) کبھی کسی نے سوال اٹھایا کہ افغانستان کی جیلوں میں سالوں سے قید ان لڑکیوں کا جرم کیا ہے جس کے بدلے میں وہ جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کیوں یہ قیدی بچیاں معین کردہ سزا کاٹنے کے باوجود رہائی کی ساری امیدیں ختم کر بیٹھی ہیں۔ ریاست سے لے کر
نامور خاتون مضمون نگار فرحین شیخ اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ خاندان تک کوئی ان کا پُرسانِ حال نہیں۔ ان کو زندگی کی خوشیوں سے محروم کر کے قید میں لا پھینکنے والا وہ بدنامِ زمانہ ورجینیٹی ٹیسٹ ہے جس کا قانون افغانستان میں کئی دہائیوں سے رائج ہے۔ ”ٹو فنگر ٹیسٹ‘‘ کے اذیت ناک مراحل سے گزر کے جو لڑکیاں اپنا کنوارپن ثابت نہیں کرپاتیں ان کے لیے افغانستان میں تین ماہ قید کی سزا کا قانون پورے کروفر سے موجود ہے۔ اس وقت یہ سزا بھگتنے والی قیدی بچیوں کی عمریں بارہ سے بیس سال کے درمیان ہیں۔ یہ بدنصیب بچیاں گُڑیوں سے کھیلنے اور تتلیوں کے پیچھے بھاگنے کی عمر میں محض شک کی بنا پر، تو کبھی اپنی کسی معمولی سی غلطی کے خمیازے کے طور پر تو کبھی نکاح کی ڈور سے باندھ کرلے جانے والے کی نفسیاتی اور قلبی تسکین کے لیے ورجینیٹی ٹیسٹ کے پریشان کن اور شرم ناک مرحلے سے گزاری جاتی ہیں۔ ان میں سے کتنی ہی ایسی بچیاں ہیں جو باکرہ ہونے کی سند نہ پاکر غیرت کے نام پر قتل کردی جاتی ہیں اور بے شمار وہ ہیں جو جیل کی کُھردری زمین کو اپنا مقدر جان کر لہو روتی ہیں۔ افغانستان کی یہ بچیاں ایک ایسے جرم کی پاداش میں تاریک راہوں پر دھکیلی گئی ہیں جس کے معنی و مفہوم سے بھی شاید وہ واقف نہیں۔
افغانستان اور اس جیسے دیگرقدامت پسند معاشروں میں ورجینیٹی ٹیسٹ عورتوں کی زندگی کے لیے سمِ قاتل زیادہ کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ باشعور دنیا باکرہ پن کے اس معائنے کو انتہائی غیراخلاقی اور پُرتشدد قرار دیتے ہوئے رد کرچکی ہے، لیکن یہ اب بھی پوری آن بان کے ساتھ افغان عورتوں کی بربادی کا نوشتہ بنا ہوا ہے۔ افغان عورتوں سے یہ ہمدردی مجھے صرف ایک تحریر لکھنے کے لیے اچانک نہیں سوجھی بلکہ اس وقت افغان حکومت سے پاس ہونے والا وہ قانون بیٹھی پڑھ رہی ہوں جس میں ورجینیٹی ٹیسٹ کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔یوں تو کنوارپن کا ٹیسٹ صرف افغانستان کا المیہ نہیں بلکہ انڈیا، انڈونیشیا، افریقا اور مشرقِ وسطی کی بے شمار لڑکیاں اس تکلیف دہ اور شرم ناک عمل سے گزاری جارہی ہیں، جہاں وہ کنوار پن کی سند حاصل کرنے میں ناکامی پر اپنے اپنے علاقوں کی روایتوں کے مطابق بدترین سلوک کی حق دار ٹھہرتی ہیں۔ لیکن افغانستان کا معاملہ اس طور پر جدا ہے کہ یہاں اس قبیح فعل کو حکومتی سرپرستی حاصل ہے جب کہ انڈیا، بنگلادیش اور انڈونیشیا میں سالوں پہلے حکومتی سطح پر اس پر پابندی عائد کی جاچکی ہے۔ پھر بھی کسی نہ کسی گاؤں یا قصبے میں اس شرم ناک رسم کی پیروی بڑے دھڑلے سے کی جارہی ہے۔
افغانستان کے سرکاری ہسپتالوں میں ورجینیٹی ٹیسٹ کے نام پر روزانہ کی بنیاد پر بے شمار لڑکیوں کی زندگی اور موت کے پروانے لکھے جارہے ہیں۔ غیرت کے نام پر ہونے والے اس ٹیسٹ کے نتائج کا اعلان انتہائی بے غیرتی سے کر کے خاندان کے مرد اپنے عزت دار ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں۔ دنیا اس وقت ہر معاملے میں دو انتہاؤں کا شکار ہے۔ ایک طرف روشن خیالی کی یہ انتہا ہے کہ عورتیں ”میرا جسم میری مرضی‘‘ کا عنوان بنی چوک میں کھڑی ہیں تو دوسری جانب اس قدر مظلومیت کہ عورت اپنے ساتھ ہونے والے اس انتہائی تشدد کو روکنے کا بھی کوئی حق نہیں رکھتیں۔دنیا بھر میں کنوارپن کے ٹیسٹ کو نہ صرف غیراخلاقی اور تکلیف دہ قرار دیا جاتا ہے بلکہ اس کو طبی اصول و قوانین کے بھی یکسر منافی سمجھا جاتا ہے۔ افغانستان میں گذشتہ کئی سال سے انسانی حقوق کی تنظیمیں اور عورتوں کے حقوق کے لیے سرگرم این جی اوز اس قانون کو ختم کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں لیکن مردوں کے معاشرے میں ایک ایسے قانون کو کیسے ختم کیا جاسکتا ہے جس کے پُرزور حامی مرد ہی ہوں۔ افغانستان کے انتہائی پڑھے لکھے اور قابل مردوں کی ایک بڑی تعداد سے ورجینیٹی ٹیسٹ کے سلسلے میں رائے لی گئی تو وہ سب اس ٹیسٹ کے حامی نکلے،
جس سے ثابت ہوا کہ تعلیمی مراحل جب افراد کا ذہنی ارتقا عطا نہ کرسکیں تو کئی نسلیں ترقی کا سفر طے کرنے کے قابل نہیں بن پاتیں۔ ایسی ڈگریوں کا حصول ملکی وسائل کے بدترین ضیاع کے سوا کچھ بھی نہیں۔ افغانستان کی جیلوں میں اس وقت بھی کئی سو کم عمر لڑکیاں اپنا پردہ بکارت سلامت نہ رکھنے کے جرم کی سزا بھگت رہی ہیں۔ یوں تو اس جرم کی سزا تین ماہ قید ہے لیکن کتنی ہی قیدی بچیاں یہاں ایک سال سے بھی زائد وقت گزار چکی ہیں۔ نہ ان سے کوئی ملنے آتا ہے اور نہ کوئی لینے۔ شاید وہ خود بھی اس تاریکی سے باہر نکلنا نہیں چاہتیں کہ یہاں سے باہر کی دنیا میں ان کے لیے زندگی کے جیتے جاگتے معنی تو ختم ہوچکے ہیں۔ جیل کی چاردیواری کے باہر ایسے سماج میں بھلا کیسے سانسیں بھریں گی جہاں معاشرے کے تمام مرد پردہ بکارت کو دین ایمان بنائے بیٹھے ہوئے ہوں جو ان لڑکیوں کی کردہ یا ناکردہ اس خطا کبھی بھولیں گے اور نہ معاف کریں گے۔ جیل سے باہر زندگی ان پر اور تنگ کردی جائے گی۔ زندہ چھوڑ بھی دی گئیں تو کسی اچھوت یا وبائی مرض کے شکار فرد سے زیادہ وہ کسی سلوک کی حق دار نہ ٹھہریں گی۔ خود کو سب سے زیادہ غیرت مند قرار دینے والے وہ معاشرے جہاں عورتوں کی تقدیر اور مردوں کی عزت کا انحصار صرف پردہ بکارت پر ہو کیا وہاں مردوں کی پاک دامنی جانچنے کا بھی کوئی طریقہ وضع کیا جائے گا؟
یا صرف عورت ہی یہ الزام اپنے کاندھوں پر دھرے غیرت کے نام پر جان دے گی، سنگسار ہوگی اور کم سے کم سزا کے طور پر جیلوں میں بکری کی طرح باندھ کر ساری عمر کے لیے چھوڑ دی جائے گی۔ بدکاری کے جرم میں صرف لڑکی کو ہی بھینٹ چڑھا کر مرد اپنے گناہ آخر کب تک دھوتے رہیں گے؟ مرد کی قوامیت کا سارا غرور پردہ بکارت کی سلامتی پر منحصر ہوکر کیوں رہ گیا ہے؟ اس بات میں دو رائے نہیں کہ اگر پردہ بکارت کسی قدرتی سبب ضایع نہیں ہوا تو پاک دامنی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے ان مردوں میں سے ہی تو کوئی اس گناہ کا ذمہ دار ہوگا لیکن سزا اکیلی عورت کے ہی کھاتے میں آتی ہے۔ ہجوم کے درمیان سنگسار ہوتا، لہراتا، لہولہان وجود کسی مرد کا کبھی نہیں دیکھا۔ کوئی مرد پابندِ سلاسل نہیں کیا جاتا۔ گذشتہ سال انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے بے حد دباؤ پر افغان صدر اشرف غنی نے یقین دلایا تھا کہ اس ٹیسٹ کو افغانستان سے ختم کر کے سارے مقدمات واپس لیے جائیں گے اور لڑکیوں کو رہا کیا جائے گا لیکن افسوس وہ اپنے وعدے پر قائم نہ رہ سکے اور انہوں نے اپنی روشن خیالی کو ایک طرف رکھتے ہوئے صرف افغانی مرد ہونے کا ثبوت دیا۔ یہ سچ ہے کہ افغان عورتوں کی ایک بڑی تعداد کا مستقبل ورجینیٹی ٹیسٹ کی وجہ سے تاریک ہوچکا ہے۔ لیکن جب حکومت ہی اس جرم میں ملوث ہو تو پھر کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں؟