counter easy hit

اردن میں ’’ملزم سے شادی‘‘ کا قانون ختم

نئے قانون میں 6ماہ کی سزا نہیں ہوگی بلکہ مجرم کو دوسرے ممالک کی طرح لمبی مدت کے لیے جیل جانا پڑے گا

The law of "marriage with the accused" ends in Urden

The law of “marriage with the accused” ends in Urden

عمان: تاجکستان ، فلپائن، شام، لیبیا، عراق ، الجزائر،اردن میں مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک ، لاطینی امریکہ ،کچھ وسط ایشیائی اور افریقی ممالک میں خواتین کے بارے میں ایک منفرد اور انوکھا قانون نافذ ہے ۔ اس قانون کی منشاء یہ ہے کہ   زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کو اسی مرد سے شادی کرنا پڑے گی ورنہ اسے عمر بھر کنواری رہنا پڑے گا   ۔ قانون کی دفعہ 308 کے تحت متاثرہ لڑکی کسی اور مرد سے شادی کر ہی نہیں سکتی ۔ اس کے والدین بھی اس کی شادی نہیں کروا سکتے ۔ قانون کا آرٹیکل نمبر 308درحقیقت 15سے 18سال کی لڑکیوں کو (بقول حکومت )تحفظ دینے کے لئے بنایا گیا ہے۔

ان کی حفاظت کے لیے مراکزبنائے گئے ہیں واقعے کے بعد کم عمر بچیوں کو ان گھروں میں منتقل کر دیا جاتا ہے جہاں انہیں سرکاری خرچ پرہر سہولت اور مکمل تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔کچھ عرصہ قبل اردن میں ایک مجرم نے 17سالہ لڑکی سے زیادتی کی اور پھر حکومت نے اس لڑکی کو اسی مرد سے شادی کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایک ظالم مرد نے درزی کی بیٹی سے زیادتی کی ، پھر وہ بچی اپنے ماں باپ سے الگ کر دی گئی ۔ سال بھر میں ایسے درجنوں کیسز سامنے آتے ہیں۔ اردن کی اعلیٰ عدالت نے 2015ء میں آنر کلنگ کے نام پر قتل ہونے والی 39عورتوں کے کیسز کی سماعت کی تھی۔ 2015ء میں ایسے36کیسز عدالت میں چلائے گئے۔ ان میں سے 8کا تعلق آنر کلنگ سے تھا۔ عدالت آنر کلنگ کے ملزم کو 6ماہ کی سزا دے سکتی ہے۔ اس سلسلے میں عدالت کو وسیع صوابدیدی اختیارات حاصل ہیں۔ قانونی ڈھانچے میں خاندانی عزت اور وقار کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

اس لیے جج صاحبان ہلکی پھلکی سزا دے کر معاملہ ختم کر دیتے ہیں اسی لئے آنر کلنگ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔اس قانون کیخلاف کئی آوازیں اٹھ رہی تھیں۔ کیسا قانون ہے جس میں عورت کو مظلوم ہونے کے باوجود سزا دی جاتی ہے۔ اس قانون کی تنسیخ کے لیے خواتین تنظیمیں بہت دیر سے جدوجہد کر رہی تھیں۔ ان کی محنت رنگ لائی اور گزشتہ دنوں اردن کی پارلیمنٹ نے ضابطہ نمبر 308منسوخ کرنے کا بل منظور کر لیا ہے۔ سرکاری وزیر کی جانب سے بل پارلیمنٹ میں پیش کرتے ہی ہر طرف شوروغل شروع ہوگیا۔ مخالفین نے آوازیں کسنا شروع کردیں۔حامی پریشان ہوگئے ،پتہ نہیں بل منظور ہوگا یا نہیں۔ ان کے ہوش اڑ گئے کیونکہ شور شرابے میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ حکومت ترمیم کے حق میں تھی ، اسے مطلوبہ اکثریت حاصل تھی۔ اسی لئے شور شرابے میں وزیر نے بل کی منظوری کا اعلان کر دیا۔’’آج خواتین کی عظیم فتح کا دن ہے۔

اردن کی وزیر برائے پارلیمانی امور نے کہا کہ یہ دن اردن کی تاریخ میں سماجی برابری کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے اب خواتین کو بھی ان کے حقوق مل جائیں گے۔ایوان بالا کی منظوری کے بعد اسے شاہ عبد اللہ کی حتمی منظوری درکار ہے جو آسانی سے مل جائے گی ۔ یہ قانون سماجی ناانصافی کا باعث بنا ہوا تھا اور اس کے خلاف کافی بے چینی پائی جاتی تھی۔ معصوم بچیوں کو زبردستی ان کے والدین سے علیحدہ کرنا کسی طرح سے بھی جائز عمل نہیں تھا۔ گھریلو نظام پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہو رہے تھے۔ مصطفی نامی شخص نے ’’قانونی اصلاحات کی کمیٹی کے پلیٹ فارم سے بھی بل کی تنسیخ کے لیے آواز اٹھائی۔ مرد کے ظلم کا شکار ایک عورت کہتی ہے۔۔۔’’ میری بیٹی ظالم سے شادی کر کے ہزار بار مرتی ہے اور ہزار بار جیتی ہے۔

حملہ آور اس کی عزت نفس سے کھیلتا ہے ،مگر دندناتا پھرتا ہے ،جیل سے بچ جاتا ہے ،یہ کیسا قانون ہے جس سے ظالم بچ جاتا ہے‘‘۔ نئے قانون میں 6ماہ کی سزا نہیں ہوگی بلکہ مجرم کو دوسرے ممالک کی طرح لمبی مدت کے لیے جیل جانا پڑے گا۔ ’’اسلامی ایکشن فنڈ ‘‘ اس ترمیم کے حق میں تھے۔ مسلم بار ایسوسی ایشن نے اس کی تنسیخ کے حق میں وزن ڈالا۔’’ اسلامی قانون میں ظالم کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ابھی ہمیں بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسلامی ایکشن فنڈ کی ممبر پارلیمنٹ دیما نے کہا۔ ’’ظالم ایسا داغ لگادیتا ہے جو زندگی بھر ختم نہیں ہوتا ایسی عورتوں کو معاشرے میں باعزت مقام دلانے کے لیے قانون بدلنے ہوں گے۔ خاندان کی عزت سے کھیلنے والے ایسے لوگوں کو جیل کے پیچھے ہونا چاہیے ان کو تو شادی کے ذریعے معاشرے میں دندنانے کی اجازت مل جاتی تھی‘‘۔

About MH Kazmi

Journalism is not something we are earning, it is the treasure that we have to save for our generations. Strong believer of constructive role of Journalism in future world. for comments and News yesurdu@gmail.com 03128594276

Connect

Follow on Twitter Connect on Facebook View all Posts Visit Website