اہور ; پاکستان مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سابق وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے دعویٰ کیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے ناراض رہنماء چوہدری نثار نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کو ووٹ دینے کی یقین دہانی کروا دی ہے۔ ان کا یہ بھی دعویٰ ہے
کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے گیم نمبر مکمل ہو چکے ہیں، وہ خلائی مخلوق سے بچانے کیلئے آزاد امیدواروں کا نام فی الحال سامنے نہیں لائینگے۔جبکہ ترجمان چوہدری نثار کا کہنا ہے کہ کسی نے رابطہ کیا نہ کسی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ رانا ثناء اللہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے آزاد اراکین سے رابطے مکمل ہو چکے ہیں اور وہ جلد آزاد اراکین کے ساتھ مل کر مشترکہ پریس کانفرنس کرینگے جس میں آزاد اراکین ن لیگ کی حمایت کا اعلان کرینگے۔دوسری جانب چوہدری نثار نے رانا ثنااللہ کے دعویٰ کے تردید کردی ہے ۔ترجمان نے کہا کہ میڈیا چوہدری نثار کے حوالے سے غیر مصدقہ اور من گھڑت خبریں چلانا بند کرے۔ ترجمان چوہدری نثار نے کہا کہ چوہدری نثار علی خان کا نہ تو کسی سیاسی پارٹی سے رابطہ ہے اور نہ انہوں نے کسی کو اپنی حمایت کا یقین دلایا ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور متحدہ مجلس عمل سمیت دیگر جماعتوں پر مشتمل اتحاد وفاق میں حکومت سازی سے متعلق اہم فیصلے کا اعلان آج کرے گا۔اسلام آباد میں گزشتہ روز سیاسی جماعتوں کے سربراہان و نمائندگان کا اہم اجلاس ہوا جس میں فیصلہ کیا
گیا کہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو آسانی سے وزیراعظم نہیں بننے دیں گے اور پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔ذرائع کے مطابق سیاسی رہنماوں نے طے کیا کہ وزیراعظم، اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے عہدوں پر امیدوار کھڑے کیے جائیں گے اور مذکورہ عہدوں پر متفقہ امیدوار لانے پر بھی اتفاق کیا گیا جب کہ مشترکہ امیدواروں کے لیے اے پی سی میں شامل دیگر جماعتوں سے بھی رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ مرکز میں حکومت سازی کے لیے کوشش کی تجویز پر پیپلز پارٹی نے فوری رضا مندی ظاہر نہیں کی تاہم پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے مؤقف اختیار کیا کہ حکومت سازی کے فیصلے کا مینڈیٹ مرکزی قیادت کے پاس ہے۔ اجلاس میں شریک ذرائع نے بتایا کہ مولانا فضل الرحمان نے قومی اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بارے میں تحفظات ظاہر کیے اور کہا کہ اس صورت میں پارلیمان سے باہر احتجاج کی حکمت عملی کیا ہوگی؟ مولانا فضل الرحمان نے اصرار کیا کہ قومی اسمبلی جانے کی صورت میں پارلیمنٹ کے باہر بھی سخت احتجاج کیا جائے جس پر تمام جماعتوں نے اتفاق رائے کیا۔ اجلاس کے دوران یہ بھی طے پایا کہ پارلیمان کے اندر اور باہر اسخت احتجاج کے لیے مشترکہ حکمت عملی اختیار کی جائے گی، اس دوران احتجاج کے لیے مختلف شہروں کی نشان دہی بھی کی گئی۔