اسلام آباد: جے آئی ٹی نے قرار دیا ہے کہ شریف خاندان کا پہلا اور مکمل دفاع قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کا خط حقیقت کے بجائے ایک افسانہ ہے۔
جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں جمع کرائی جانے والی اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وزیراعظم نوازشریف،حسن نواز، حسین نواز اور مریم صفدر جے آئی ٹی کے سامنے قطری خط کے سابقہ مواد کی توثیق کے لیے ثبوت، ریکارڈ یا شہادت پیش کرنے میں ناکام رہے۔ جے آئی ٹی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ شریف خاندان کا پہلا اور فائنل دفاع قطری شہزادے حماد بن جاسم بن جابر الثانی کے خط کو قرا ر دیا لیکن جو حقیقت کے بجائے ایک افسانہ تھا۔ حکمراں خاندان نے کبھی بھی قطری شاہی خاندان کے کاروبار میں12ملین درہم کی سرمایہ کاری نہیں کی۔ یہ خطوط شریف خاندان کے وکلاء کی طرف سے پاناما کیس میں بیرون ملک حکمران خاندان کی جائیداد کی منی ٹریل ثابت کرنے کیلیے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے تھے۔ شریف خاندان کے افراد سے تفتیش، شہادتوں اور بیرونی دائرہ اختیار سے متعلق ناقابل تردید ثبوت ملنے کے بعد جے آئی ٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ حماد بن الثانی کا خط ایک بے ربط تحریر ہے۔
سپریم کورٹ کے سوالنامے کا چھٹا اور بہت اہم سوال یہ تھا کہ آیا قطری شہزادے شیخ حماد بن جاسم بن جابرالثانی کا خط حقیقت ہے یا افسانہ ؟۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں اس سوال کا جواب 24صفحات پر مشتمل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دستاویزی ثبوتوں کی روشنی میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ قطری شہزادے کا خط مکمل طور پرایک افسانہ ہے۔ جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ موصول ہونیوالے معتبر دستاویزی ثبوتوں اور گواہوں کے بے ربط بیانات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نوازشریف کے کزن طارق شفیع نے 12ملین درہم کبھی بھی پرنس حماد بن الثانی کے باپ کو نہیں دیئے۔ چنانچہ اسکی طرف سے قطری برنس میں کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران شریف خاندان نے قطری شہزادے کے2 خط5 نومبر2016ء اور 22 دسمبر2016ء کو جمع کرائے جس میں بیان کیا گیا تھا کہ کیسے قطری شاہی خاندان سے مل کر 1980ء میں گلف اسٹیل ملز خریدی گئی، یہی سرمایہ کاری بعد میں لندن میں جائیداد کی خریداری اوردیگر بیرون ملک کارروبار کیلئے استعمال کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ نوازشریف، حسن، حسین اور مریم صفدر قطری خط کی توثیق کے لئے کوئی دستاویز، ریکارڈ اورثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہے۔ جے آئی ٹی کے مطابق دونوں قطری خطوط سنی سنائی باتوں اور تضادات پر مشتمل ہیں، جس میں قطری شہزادے نے کوئی ذکرنہیں کیا کہ اس نے سرمایہ کاری سے متعلق کیسے، کب اورکس سے سنا۔ خط فسانہ۔