counter easy hit

نامور گلوکار احمد رشدی کی آواز کا جادو 35 برس بعد بھی برقرار

لاہور: بر صغیر کے معروف گلوکار احمد رشدی کو دنیا سے بچھڑے 35 برس بیت گئے لیکن ان کی جادوئی آواز آج بھی مداحوں کے کانوں میں رس گھول رہی ہے۔

The magic of the illiterate singer Ahmed Rushdi sound remains even after 35 years24 اپریل 1934 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہونے والے احمد رشدی قیام پاکستان کے بعد کراچی منتقل ہوئے اور پھر یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی، انہیں بچپن سے ہی موسیقی سے لگاؤ تھا جسے دیکھتے ہوئے ان کے مرحوم والد کے ایک دوست نے انہیں موسیقی کی تعلیم دینے والے مقامی ادارے میں داخل کرایا جہاں اپنے وقت کے دورکے معروف موسیقار ایم اے رؤف اور اقبال قریشی موسیقی کی تعلیم دیا کرتے تھے اس کے علاوہ انہوں نے استاد نتھو خان سے کلاسیکی موسیقی سیکھی۔

احمد رشدی نے بھارتی فلم ’’عبرت‘‘ سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا اور اسی دوران ان کا خاندان کراچی آگیا اور پھر وہ ریڈیو پاکستان سے منسلک ہوگئے، احمد رشدی کو  1955 میں پاکستان کا قومی ترانہ پہلی مرتبہ گانے کااعزاز حاصل ہے۔ ریڈیو میں بچوں کی دنیا کے نام سے نشر ہونے والے پروگرام میں ان کے گائے ہوئے گانے ’’بندر روڈ سے کیماڑی‘‘ نے شہرت کی بلندیوں کو چھوا۔

فلم ’’انوکھی‘‘ میں گائے گئے گانے ’’میری لیلیٰ‘‘ نے انہیں مقبولیت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ احمد رشدی نے پاکستان فلم انڈسٹری کے تمام ہیروز کے لئے گیت گائے لیکن وحید مراد پر ان کی آواز میں فلمائے گئے گیت کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مقبول عام ہیں، جن میں ’’کوکو کورینا‘‘ اور ’’کچھ لوگ روٹھ کر بھی‘‘ جیسے گیت شامل ہیں۔ انہوں نے 583 فلموں میں 5 ہزار سے زائد نغموں کو اپنی آواز میں ڈھالا، انہوں نے ناصرف اردو بلکہ انگریزی، پنجابی، بنگلا، سندھی اور گجراتی زبانوں میں بھی سیکڑوں نغمے گائے۔  احمد رشدی کو برصغیر کا پہلا پاپ گلوکار ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔

1983 کو آج ہی کے روز احمد رشدی خالق حقیقی سے جاملے، لیکن ان کی رسیلی آوازآج بھی کروڑوں مداحوں کے کانوں میں رس گھولتی ہے۔