تحریک پاکستان کی اہم ترین شخصیت ، مصنف ،قانون دان ، سیاستدان، مسلم صوفی ،شاعر مشرق اور حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا 140 واں یوم پیدائش آج روایتی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے ۔
9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال 20 ویں صدی کی نابغہ روزگار شخصیات میںسے ایک تھے ،وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، علامہ ڈاکٹر محمد اقبال محض ایک فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسان کے انسان کے ہاتھوں استحصال کے بھی خلاف تھے۔
وہ چاہتے تھے انسان بلا تمیز رنگ و نسل اور مذہب ایک دوسرے کے ساتھ اچھا رویہ روا رکھیں، باہمی احترام اور محبت سے وابستہ رہیں کہ یہی منشا رب کائنات ہے، پاکستانی کی نئی نسل بھی اقبال کی احترام آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔
علامہ ایک طرف امت مرحوم کا نوحہ کہتے ہیں تو دوسری طرف وہ مسلم نوجوان کو ستاروں پر کمندڈالنے کی ترغیب دیتے نظر آتے ہیں، اقبال قوم کو خانقاہوں سے نکل کر میدان عمل میں اترنے پر ابھارتے ہیں وہ اسلامی دنیا میں روحانی جمہوریت کا نظام رائج کرنے کے داعی تھے۔
علامہ اقبال کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کوغفلت سے بیدار کرکے نئی منزلوں کا پتہ دیا، ان کی شاعری روایتی انداز و بیاں سے یکسر مختلف تھی کیونکہ ان کا مقصد بالکل جدا اور یگانہ تھا، انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے برصغیر کے مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی جو تحریکِ آزادی میں بے انتہا کارگر ثابت ہوئی۔
علامہ اقبال کے شعری مجموعوں میں بانگ درا، ضرب کلیم، بال جبرئیل، اسرار خودی، رموز بے خودی، پیام مشرق، زبور عجم، جاوید نامہ، پس چے چہ باید کرد اے اقوام شرق اور ارمغان حجاز کے نام شامل ہیں۔
علامہ اقبال نے تمام عمر مسلمانوں میں بیداری و احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کی کوششیں جاری رکھیں مگر ان کوششوں کی عملی تصویر دیکھنے سے پہلے ہی وہ 21 اپریل 1938 کو خالقِ حقیقی سے جا ملے۔