اِس میں کوئی شک نہیں کہ اہل عِلم کی اِس میں آراء مختلف ہیں ۔امام بخاری‘ابنِ جریر طبری ‘ابنِ المنذر ‘امام مالک ‘امام شافعی ‘ابراہیم نخعی رحمتہ اللہ علیہ ان سب کے نزدیک حائضہ عورت کا قرآن کی تلاوت میں کوئی مضائقہ نہیں ۔راجح بات بھی یہی معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن وسنت میں کوئی صریح اور صحیح دلیل موجود نہیں جس میں حیض والی عورتوں کو قرآن مجید کی تلاوت سے روکا گیا ہو اور یہ ظاہر ہے کہ عورتیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی حائضہ ہوتی تھیں ۔اگر قرآنِ مجید کی تلاوت ان کے لیے حرام ہوتی تو اللہ کے رسول انہیں قرآنِ مجید کی تلاوت سے روک دیتے جس طرح کی نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے روک دیا تھا اور جب حیض کی کثرت کے باوجود کسی صحابی رسول نے یا اُمہات الموٴمنین رضی اللہ عنہ میں سے کسی نے بھی امام الا نبیاء صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت نقل نہیں کی تومعلوم ہوا کہ جائز ہے ۔اب اِس چیز کا عِلم ہونے کے باوجود کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس کی ممانعت بالکل منقول نہیں اِس کو حرام کہنا درست نہیں ہے ۔یہ بھی یاد رہے کہ اِس بارہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جو حدیث مروی ہے کہ :یہ حدیث ضعیف ہے کیونکہ اِس کی سند میں اسماعیل بن عیاش ہے۔جب یہ شخص حجازیوں سے کوئی روایت بیان کرے تو وہ قابل اعتماد نہیں ہوتی اور یہ روایت حجازیوں سے ہے اور دوسری جابربن عبداللہ کی حدیث کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ حدیث بھی پایہ ثبوت کو نہیں پہنچتی ۔اِس کی سند میں محمد بن الفضل ہے جسے محدثین نے متروک الحدیث قرار دیا ہے ۔احادیث گھڑنے کا بھی اِس پر الزام ہے ۔یہی حدیث جابر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً بھی مروی ہے ۔اِس کی سند میں یحییٰ بن ابی انیسہ ہے اور یہ کذاب ہے ۔امام شوکانی رحمتہ اللہ علیہ ان دونوں احادیث کے بارہ میں لکھتے ہیں :کہ ان دونوں حدیثوں کو حائضہ عورت کے لیے قرآ نِ مجید کی تلاوت کی ممانعت کی دلیل نہیں بنایا جا سکتا اور بغیر دلیل کے اسے حرام نہیں کہا جا سکتا۔باقی مفتی اعظم شیخ ابنِ باز نے کہا ہے کہ ایسی عورت قرآن کو چھونہیں سکتی۔ مُنہ زبانی پڑھ سکتی ہے لیکن مجھے اِس کی کوئی دلیل نہیں ملی ۔کہ قرآن کو طاہر کے سواء کوئی نہ چھوئے ‘سے اِس پر استدلال درست نہیں ہے کیونکہ الاطاہر کا معنی بخاری شریف کی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث متعین کرتی ہے کہ اس کا معنی ہے مومن کے سواء قرآن کو کوئی نہ چھوئے ۔واللہ تعالیٰ اعلم ۔حائضہ عورت کا قرآن کو چھوناحائضہ عورت کے قرآنِ مجید کی تلاوِت کے بارے میں اکتو بر 95ء کے مجلہ الدعوة میں تفصیلاً لکھا گیا ہے کہ شریعت میں ایسی کوئی دلیل موجود نہیں جس میں حائضہ عورت کو قرآنِ مجید پڑھنے سے روکا گیا ہو۔رہا قرآنِ مجید کو چھونے کا مسئلہ تو اِس کے متعلق اہل علم کی آراء مختلف ہیں ۔عدل وانصاف کے ترازو سے جس بات کو ترجیح ملتی ہے وہ یہ ہے کہ عورت کو ایسی حالت میں بلاوجہ قرآنِ مجید کو نہ چھونا چاہئے لیکن پڑھنے اور پڑھانے کے سلسلہ میں اگر چھو بھی لیتی ہے تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ قرآنِ مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین میں کوئی ایسی دلیل نہیں جو اِس کی حرمت پر دال ہو ۔جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں عورتیں حائضہ ہوتی تھیں ۔وہ قرآن مجید پڑھتی پڑھاتی بھی تھیں لیکن کہیں بھی ان کو یہ تعلیم نہیں دی گئی کہ وہ ایسی حالت میں قرآنِ مجید کو چھو نہیں سکتیں ۔اِس وقت اس مسئلہ کے بیان کی ضرورت بھی تھی لیکن ضرورت کے باوجود شارع علیہ السلام کی اِس پر خاموشی اِس کے جواز کے دلیل ہے ۔قرآنِ مجید کی جس آیت سے استدلال کرتے ہیں وہ استدلال درست نہیں ہے کیونکہ یہ آیت قرآنِ مجید کے چھونے کے بارے میں نہیں ہے ۔اِ س آیت کے سیاق وسباق کا غور سے مطالعہ کریں تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ قرآن مجید کے متعلق نہیں بلکہ لوحِ محفوظ کے متعلق کہی گئی ہے ۔کی ضمیر کا مرجع ہے ۔اور سے مراد فرشتے ہیں ۔تو اِس آیت کا معنی ہے کہ ”لوحِ محفوظ کو فرشتوں کے سوا کوئی نہیں چھوتا۔“سے مراد فرشتے ہیں ۔اِس بات پر عبداللہ بن عباس ‘انس بن مالک کے علاوہ تابعین کی بہت بڑی جماعت متفق ہے ۔احناف کی تفسیر روح المعانی میں ہے ابنِ کثیر میں بھی اِس معنی کی عبارت موجود ہے کہ مطہرین سے مراد فرشتے ہیں ۔یہ عبداللہ بن عباس سے کئی اسناد کے ساتھ مروی ہے اور انس رضی اللہ عنہ سے بھی ایک جماعت نے اِس کو روایت کیا ہے۔ تفسیر رازی میں ہے کہ کی ضمیر )کتاب (لوحِ محفوظ )کی طرف راجع ہے ۔ اشرف الحواشی میں ہے کہ بعض نے اس ضمیر کو قرآنِ مجید کے لیے مانا ہے اور یہ استدلال کیا ہے کہ بے وضو ہونے کی حالت میں اسے چھونا جائز نہیں ہے مگر یہ استدلال صحیح نہیں ہے اور قرآن مجید کو بے وضو چھونا جائز ہے گو بہتر یہ ہے کہ وضو کر لیا جائے۔قرآن مجید کو چھونے کے متعلق جو صحیح حدیث کے الفاظ ہیں ”طاہر کے سواء قرآن کو کوئی نہ چھوئے ۔“اِس طاہر کی تفسیر صحیح بخار ی شریف کی حدیث میں موجود ہے ۔جس کے راوی ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں ۔یہ جنبی تھے ‘نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر دور سے گزر گئے ‘غسل کے بعد واپس آکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو کہا کہ مومن نجس ہوتا ہی نہیں ہے ۔اِس حدیث سے ظاہر ہے کہ سے مراد الامومن ہے ۔یعنی قرآن مجید کو مومن کے سواد وسرا نہ چھوئے ۔اور یہ بات مسلم ہے کہ حیض کی حالت میں عورت مومنہ ہی رہتی ہے ۔پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ مجھے مسجد سے مصلیٰ پکڑا ؤ ۔انہوں نے کہا کہ میں حائضہ ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا:”بے شک تیرا حیض تیرے ہاتھ میں نہیں ہے ۔ “نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ الفاط اِس مسئلہ میں نص کی حیثیت رکھتے ہیں کہ حیض کی نجاست ہاتھ کے اندر نہیں ہے ۔بلکہ حیض کی حالت میں ہاتھ پاک ہی رہتا ہے ۔اِس ساری وضاحت کے باوجود اگر مسلمان عورت زیادہ تعظیم اور احترام کے پیش نظر قرآن مجید کو بغیر چھونے کے اگر پڑھ سکتی ہے یا کوئی صاف ستھرا کپڑا قرآنِ مجید کو پکڑنے اور اور اق اُلٹانے کے لیے استعمال کرلے تو بہت بہتر اور اچھا ہے ۔اس سے علماء کے اختلاف سے بھی نکل جائے گی ۔ایسی صورت میں امام نووی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کے جواز میں کسی کو اختلاف نہیں ۔