کارگل کا محاذ گرم تھا۔ 10جون 1999ء کا سورج ایک نئی تازگی‘ شگفتگی اور رعنائی لیے مشرق کے افق سے طلوع ہوا۔ بریگیڈئیر نصرت سیال اپنی بیگم سے مخاطب ہوکر کہہ رہے تھے کہ آج مجھے محاذ جنگ کے نزدیک “گل تری” کے مقام پر جانا ہے‘ واپسی میں دیر بھی ہوسکتی ہے۔ سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلند یہ وادی ان دنوں یخ پستہ ہوائوں کی لپیٹ میں تھی۔ بریگیڈئر نصرت خان سیال بذریعہ ہیلی کاپٹر سکردو سے گل تری پہنچے اور سارا دن محاذ جنگ پردشمن سے برسرپیکار اپنے جوانوں کیساتھ گزارا ۔ شام ڈھلے واپسی کا سفرشروع ہوا تو موسم خراب تھا ‘ انہوں نے ہیلی کاپٹر پر سکردو کیلئے اڑان بھری۔ ابھی رات کے اندھیرے میں کچھ فاصلہ ہی طے ہواتھا کہ ہیلی کاپٹربرف میں ڈھکی ہوئی ایک بلند پہاڑی چوٹی سے ٹکر کر تباہ ہو گیا جس سے بریگیڈئر نصر ت خان سیال سمیت میجر محمد حنیف ‘ کیپٹن محمد عزیز ‘ کیپٹن سعید احمد خان ‘ کیپٹن جمال اکبر‘ صوبیدار وزیر خان ‘ حوالدار محمد شبیر ‘ حوالدار بشیر احمد ‘نائیک نصیر احمد ‘ سپاہی عبدالکریم اورگنر عبدالرحیم شہید ہوگئے ۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی دوسری جانب بریگیڈ ہیڈکوارٹر سے میجر شیر افگن بول رہے تھے انہوںنے بیگم سیال کوبتایا کہ ہیلی کاپٹر کو حادثہ پیش آیا ہے بریگیڈئرصاحب اس حادثے میں زخمی ہیں آپ سامان باندھ لیں آپ کو راولپنڈی منتقل کرنا ہے ۔ یہ سنتے ہی بیگم سیال اپنے ہوش کھو بیٹھیں ‘ بے ہوشی کے عالم میں ہی انہیں بچوں سمیت ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہلے راولپنڈی لایا گیا پھر تابوت سمیت ہیلی کاپٹر کامرس کالج سیٹلائٹ ٹائون جھنگ کے میدان میں اتارا گیا۔جب بیٹے کی شہادت کی خبر بریگیڈئر نصرت سیال کی والدہ کو دی گئی تو دل و جان سے پیار کرنیوالی ماں نے ایک لمبی سانس بھری ‘ آسمان کی طرف دیکھ کر اللہ کے اس فیصلے کو قبول کرلیا۔ نماز جنازہ میں جھنگ شہر کے ہر چھوٹے بڑے نے شریک ہوکر پاک فوج کے اس عظیم سپوت کو خراج تحسین پیش کیا ۔ بیگم نصرت سیال نے شہادت کے بعد ایک ملاقات میں مجھے بتایا کہ چند ہفتے پہلے سکردو میں کیپٹن انعام اللہ شہید کی میت لائی گئی جو کارگل کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے تھے ‘ جب ان کی میت سکردو پہنچی تو پورا ماحول خوشبو سے مہک اٹھا ۔کیپٹن انعام اللہ کی شان اور مرتبے شہادت کو دیکھ کر بریگیڈئر نصرت سیال نے بھی امام صاحب سے یہ دعا کرائی تھی کہ اللہ انہیںبھی ایسی ہی عظیم موت عطا فرمائے۔
نماز جنازہ میں شریک ہزاروں افراد نے اس دعا پر آمین کہا تھا۔ گویا شہادت کی آرزو قدرت نے پوری کر دی۔ بیگم نصرت سیال مزید کہتی ہیں کہ ہمیں سوتے جاگتے اپنے گھر میں بریگیڈئر صاحب اکثر دکھائی دیتے ہیں پورا گھر خوشبو سے مہکتا رہتا ہے ۔ ایک شام میری طبیعت خراب تھی مجھے خوف آرہا تھا اسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو شہید شوہر سے خواب میں ملاقات ہوئی انہوںنے کہا گھبرانے کی ضرورت نہیں میں تمہارے پاس ہی ہوں ۔بیڈ کے قریب رکھی ہوئی کرسی پر ساری رات بیٹھا رہا ہوں ۔جیسے ہی میری آنکھ کھلی تو کرسی ایسے ہل رہی تھی جیسے ابھی کوئی اٹھ کرگیا ہو اور کمرہ دلفریب خوشبو سے مہک رہا تھا۔بیٹی رباب نصرت کہتی ہیں مجھے سیڑھیوں پر بیٹھے ہوئے ابو نظر آئے ‘میں دوڑ کر وہاں پہنچی تو وہ نظروں سے اوجھل ہوگئے ۔ایک دن خواب میں ابو سے ملاقات ہوئی تو میں نے شکوہ کیا ابو آپ کی جھلک تو گھر میں جابجا نظر آتی ہے لیکن آپ حقیقت میںہم سے بات کیوں نہیں کرتے ؟ابو نے کہا نظر آئے بغیر بھی تو بات ہوسکتی ہے۔ شہید کی بھتیجی عذرا نصرت نے ایک خواب دیکھا‘ دور دور تک سرخ قالین بچھے ہوئے تھے بہت ہی خوبصورت منظر تھا شاید یہ جنت کا کوئی گوشہ ہو ۔جنت کے دروازے پر نصرت سیال شہید دکھائی دیئے جو اپنی والدہ اور والد کو ہاتھ پکڑ کر جنت میں لے کر جارہے تھے ۔بہت عرصے تک اس خواب کی روحانیت مجھ پر طاری رہی ۔ شہید کے برادرنسبتی نصر اللہ خان کو شہید خواب میں ملے اور کہا میرے گھر والوں کو کہہ دو جب بھی کوئی پرابلم ہو مجھے فون کرلیاکریں ۔شہید کے ہاتھ میں ایک گولڈن رنگ کا وزٹنگ کارڈ دیا جس پر گنبدخضری کا نقش ابھرا ہوا تھا۔ کارڈ پر بنا ہوا گنبد خضری کا بٹن دبائیں تو مجھ سے بات ہوسکتی ہے ۔کسی اور کی بات تو دور رہی خود مجھے بھی خواب میں ایک مرتبہ بریگیڈئر نصرت سیال شہید ملے اور مجھے کہا آپ میرے اہل خانہ کا خیال رکھتے ہیں ‘ یہ عمرے کا ٹکٹ پکڑیں اور ارض مقدس جاکر عمرہ کریں۔اس خواب کے بعد ہی اللہ نے مجھے عمرہ کی سعادت عطا فرمائی۔ بریگیڈئر نصرت سیال 16 مارچ 1953ء کو جھنگ کے آبائی محلہ مسلم نگر میں پیدا ہوئے ۔میٹرک اسلامیہ ہائی سکول جھنگ اور ایف ایس سی زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کرکے 1974 میں بطور سیکنڈلیفٹیننٹ فوج کو جوائن کیا۔ بعدازاں آپکو ڈائریکٹ بریگیڈئر رینک پر ترقی دے کر لاہور کور ہیڈکوارٹر سے سکردو ٹرانسفر کردیا گیا ۔ بریگیڈئر نصر ت خان سیال کو شہید ہوئے آج 20سال ہوچلے ہیں۔ ان کی بیٹی رباب شادی کے بعد اپنے گھر میں جاچکی ہیں جبکہ بیٹا حسن بھی اپنا گھر بسا چکا ہے یاد رہے کہ آپ کو انڈین پائلٹ ناچی کیتا کو پکڑنے کا اعزاز بھی حاصل ہے ۔ حکومت پاکستان کی جانب سے آپ کو بعد از شہادت ستارہ بسالت دیا گیا ۔