اسلام آباد: قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی سربراہی سے ہٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں لیکن ایسا کرنے کے لیے حکومت کو اتحادیوں کی منظوری بھی لینا ہو گی۔شہبازشریف کو پی اے سی کی سربراہی سے ہٹانے کے لیے حکومت کے اتحادیوں کی منظوری لینا ضروری ہے۔
کیونکہ اتحادیوں کے بغیر شہباز شریف کو ہٹانا ممکن نہیں ہے۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی میں پاکستان تحریک انصاف کے11ممبر جبکہ 4 اتحادی جماعتوں کے ممبر ہیں اورایک آزاد ممبرموجود ہے۔اپوزیشن شہباز شریف کی چیئرمین شپ کے معاملے پر متحد ہے۔مسلم لیگ ن نے حکومت کی جانب سے شہباز شریف کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی صدارت سے ہٹائے جانے پر دیگر تمام کمیٹیوں کے بائیکاٹ کرنے کی حکمت عملی پر غور شروع کر دیا ہے۔ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں سے بھی مشاورت کی جائے گی ۔حکومتی مطالبے پر بھی اگرشہبازشریف استعفیٰ نہیں دیتے تو انہیں قانونی طریقے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔کمیٹی میں اس وقت 29 ممبران ہیں۔حکومت اور اس کے اتحادیوں کے 16جبکہ اپوزیشن اتحاد کے 13 ارکان ہیں۔پی ٹی آئی11 جبکہ ق لیگ ایم کیو ایم ، بی این پی اور باپ کا ایک ایک ووٹ ہے۔ایک آزاد رکن علی نواز شاہ حکومت کے حامی ہیں۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں میں ن لیگ کے 6،پیپلز پارٹی 5،جے یو آئی اور ایم ایم اے کا ایک ایک ووٹ ہے۔پارلیمانی ذرائع کے مطابق اختر مینگل 6 نکاتی فارمولے پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث حکومت سے ناراض ہیں۔ 28 نومبر 2016ء کی اسپیکرقومی اسمبلی کی رولنگ کے مطابق کل ارکان کی اکثریت قرارداد کے ذریعے چیئرمین کمیٹی کو ہٹا سکتی ہے۔