برصغیر پاک و ہند دنیا کا وہ واحد خطہ ہے جہاں صدیوں کی مذہبی روایت میں بنی نوع انسان کو چار مختلف گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے‘ برہمن‘ ویش‘ کھشتری اور شودر۔ بات یہاں تک نہیں رکتی بلکہ ان چاروں سے بھی کمتر ’’دلت‘‘ ہیں جو اس وقت ہندوستان کے باسی تھے جب ایشیائے کوچک سے آریائی اقوام اپنے علاقوں میں قحط‘ بھوک اور بیماری سے بھاگ کر یہاں فوج در فوج آئیں‘ انھوں نے یہاں پر بسنے والے مقامی افراد کو قتل کیا‘ ان کے شہر اجاڑے اور برصغیر کے وارث اور مالک بن بیٹھے۔
موئن جوداڑو‘ ہڑپہ اور مہر گڑھ جیسی تہذیبوں کو برباد کرنے والے آج وہاں مالک و مختار بنے بیٹھے ہیں اور ان تہذیبوں کے خالق انسانوں کی نسلیں دلت کی زندگی گزار رہی ہیں۔ ان پانچ درجات کے بعد ایک اور تقسیم بھی ہے جو خالصتاً نفرت کی بنیاد پر قائم ہے۔ جب آریائی اقوام نے یہاں اپنا مسکن بنا لیاتو انھیں ہندوستان اسقدر حسین لگا کہ انھوں نے اسے دیوتاؤں کی سرزمین قرار دیااور اس کو چھوڑنا ’’پاپ‘‘ یعنی گناہ قرار دے دیا گیا۔
ان دیوتاؤں کی دیو مالائی کہانیاں اسی گنگا اور جمنا کے دریاؤں اور ہمالیہ کے بلند و بالا پہاڑوں کے دامن کے گرد گھومتی ہیں۔ انھوں نے یہاں بسنے والے تمام انسانوں کو نسلی تقسیم میں پرو دیا اور اس نسلی تقسیم کو ہندو مت کی مقدس کتابوں کی سند دے دی۔ اس کے بعد انھوںنے ایک چھٹی تقسیم کی۔ یہ ہر باہر سے آنے والے فرد کے لیے تھی۔ اس کو ملیچھ کہا گیا۔ یعنی جس نے دیوتاؤں کی اس دھرتی کو ناپاک کر دیا ہے۔
ہندومت کے نزدیک یہاں پر آباد نسلوں میں سے کوئی بھی دوسرا مذہب اختیار نہیں کر سکتا۔ اگر کرے گا تو وہ نسل سے خارج ہو جائے گا۔ سندھ سے رکن قومی اسمبلی رانا چندر سنگھ جب کسی مسلمان راجپوت سے ملتا تو اسے کہتا تم کیسا راجپوت ہے کہ تم نے اپنا دھرم چھوڑ دیا۔ پوری دنیا میں ابراہیمی مذاہب‘ یہودیت‘ عیسائیت اور اسلام کے علاوہ بدھ مت‘ جین مت یا دیگر میں اس طرح کی نسل انسانی کی تقسیم موجود نہیں۔ کسی حد تک یہودی اپنے آپ کو منتخب قوم سمجھتے ہیں لیکن ان میں ہندومعاشرے کی طرح اس قدر واضح تفریق موجود نہیں کہ شودر یا دلت کے ساتھ بیٹھ کر کھانا تو ایک طرف‘ اس سے ہاتھ بھی نہیں ملایا جا سکتا۔
اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ اس کی تعلیمات نے تمام بنی نوع انسان کو ایک آدم کی اولاد قرار دیا اور فضیلت کا معیار تقویٰ رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ قریش جیسے پر غرور اور تفاخر والے معاشرے میں حضرت عمرؓ جیسا جلیل القدر صحابی اور خلیفۃ المسلمین و امیر ا لمومنین ساری زندگی ایک حبشی غلام حضرت بلال ؓ کو سیدنا بلال یعنی میرے آقا بلال کہہ کر پکارتا رہا۔ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے خطبہ حجتہ الوداع میں جہاں اس بات کو کھول کر بیان کیا کہ کسی گورے کو کالے یا کالے کو گورے پر فضیلت نہیں وہیں فرمایا ’’تمہاری جاہلیت کے رنگ‘ نسل اور زبان کی عصبیت کے بت میرے پاؤں تلے کرچی کرچی ہو چکے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جب اس برصغیر پاک و ہند میں صوفیائے کرام تشریف لائے تو انھوںنے اس ہندوتہذیب کا مطالعہ کرنے کے بعد ایک روایت کی بنیاد ڈالی اور وہ تھی ’’لنگر‘‘ ایک دستر خوان جس پر ایک شودر یا دلت ایک اعلیٰ ذات بلکہ برصغیر کے حکمران خاندان کے فرد کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا سکتا ہے۔ یہی وہ حسن کردار تھا جس کیوجہ سے لوگ جوق در جوق مسلمان ہوتے چلے گئے۔‘ لیکن چونکہ معاشرہ صدیوں سے مذہبی طور پر ذات پات میں تقسیم تھا‘ اس لیے اعلیٰ ذات والے تو راجپوت ہی کہلائے یا جاٹ وغیرہ‘ مگر چھوٹی ذات والوں کو مصلی وغیرہ کہہ کر پکارا جانے لگا۔
دوسری جانب جو لوگ باہر سے آئے تھے انھیں یہ لوگ ملیچھ نہیں کہتے تھے بلکہ ان کی عزت و تکریم زیادہ کرتے تھے۔ اسی لیے‘ ترک‘ خان‘ مغل‘ افغان‘ وغیرہ خود کو فاتحین کی نسل سمجھتے ہوئے اپنے شجرہ نصب پر فخر کرتے۔ یوں ان کی حیثیت وہی تھی جو برصغیر میں کھشتری اقوام یعنی راجپوت راجاؤں کی تھی۔ لیکن ان سب سے زیادہ مقدم وہ لوگ ٹھہرے جو اپنا رشتہ سرزمین عرب سے جوڑتے تھے۔ ان میں بھی تین بنیادی تقسیمیں ہوگئیں۔ ایک قریش جو صدیقی‘ فاروقی‘ عباسی‘ عثمانی کہلائے‘ دوسرے انصارِ مدینہ کی نسبت سے انصاری اور تیسرے سیدنا حسنؓ اور سیدنا حسینؓ کی اولاد ہونے کی نسبت سے’’سید‘‘ یعنی سردار کہلائے۔
خانوادہ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی عزت و تکریم جس قدر برصغیر پاک و ہند میں ہوئی کسی اور مسلمان ملک میں ایسی نہیں ہوئی۔ یہ برصغیر پاک و ہند کا صدیوں پرانا مزاج اور روایت بھی تھی۔ مدتوں سادات نے اپنے شجروں کو محفوظ رکھا اور اپنی نسل کو مقامی افراد کے ساتھ ازوداج کے رشتوں سے دور رکھا۔ عربوں کی طرح یہاں بھی ’’انساب‘‘ یعنی شجروں کا علم بہت عام تھا اوراس پر بے شمار کتب لکھی گئیں کہ کون اصل سید‘ اصل ہاشمی‘ اصل قریشی یا اصل انصاری ہے۔
جہاں وقت کے پلوں کے نیچے بہت سا پانی گزر چکا ‘ وہاں اب نہ شجرے رہے اور نہ ہی وہ فن‘ البتہ خود کو عربی النسل کہلوانے کا رواج آج بھی موجود ہے اور سید کا احترام بھی قائم ہے۔ لیکن اب معاملہ شجروں کا نہیں بلکہ (ڈی این اے) تک آن پہنچا ہے۔ گزشتہ پچاس سالوں میں یہودیوں نے اس ضمن بہت کام کیا اور اپنے اندر سے خالص بنی اسرائیل کو ڈھونڈا۔ ان کی دو مشہور تحقیق شوریکی ایتھل اور (تھامس ایتھل) نے 1997ء اور 1998ء میں کروموسوم کے حوالے سے کیں۔ کیونکہ یہ کروموسوم جنیاتی خصائص کی وجہ سے بتا دیتا ہے کہ کوئی ہزار سال قبل بھی بنی اسرائیل سے تھا یا اس کا جزیرہ نمائے عرب کے افراد سے بھی کوئی تعلق ہے۔ اسی طرح وسطی ایشیاء کے کچھ قبائل پر بھی تحقیق کی گئی۔ لیکن اپنی نوعیت کی واحد تحقیق یونیورسٹی کالج لندن کے تین پروفیسروں نے 2010ء میں برصغیر پاک و ہند کے چند سادات کہلانے والے افراد پر کی۔
یہ تین پروفیسر بیلے، ایم۔جی تھامس، ٹیوڈز پرفیٹ اور صائمہ شاہ ہیں۔ جینیاتی علوم اور ڈی این اے کے ماہرین کی بنائی ہوئی کسوٹی یہ تھی کہ ’’وائے‘‘ کروموسوم کی ہیپلو ٹائپ سادات میں اپنے دیگر علاقائی افراد کی نسبت مختلف بھی ہو گی اور اس میں وہ خصوصیات پائی جائیں گی جو عرب ’’وائے‘‘ کروموسوم میں پائی جاتی ہیں۔ انھوںنے برصغیر پاک و ہند سے 56سید‘ 16قریشی‘ ایک ہاشمی اور پانچ انصاری افراد کے نمونے حاصل کیے۔ یہ وہ لوگ تھے جو برصغیر سے ہجرت کر کے برطانیہ میں آباد ہوئے تھے۔ انھوںنے ان نمونوں کا موازنہ سرزمین عرب میں موجود سات عرب گروہوں کے کروموسوم سے کیا۔ لیکن ان کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ ان سب میں ایک واضح اکثریت بلکہ تقریباً تمام کے تمام ایسے تھے جن کے ڈی این اے یا وائے کرموسوم کے نمونوں میں عربی النسل ہونے کی معدوم سی نشانی بھی نہیں پائی جاتی تھی۔
یہ تحقیق اس لیے یاد آ رہی ہے کہ ان دنوں چونکہ مسلم امہ پر جو ابتلاء و آزمائش ہے وہ ٹھیک رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آخرالزمان کی بتائی گئی پیش گوئیوں کے عین مطابق ہے۔ یہ دور فتن ہے اور آپؐ نے فرمایا فتنوں سے وہی بچ سکے گا جو فتنوں کا علم رکھے گا۔(کتاب الفتن‘ نعیم بن حماد) دور فتن کے بارے میں مشکوٰۃ شریف کی باب فتن کی ایک حدیث ہے۔ جو فتنوں کی ترتیب بتاتی ہے۔
آپؐ نے فرمایا: حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے کہا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فتنہ احلاس کا ذکر کیا‘ پوچھا’’احلاس‘‘ کیا ہے‘ فرمایا: بھاگنا اور جنگ کرنا۔ پھر ’’السسرا‘‘ کے فتنے کا ذکر کیا اور فرمایا: ’’اس کا فساد ایک شخص کے دونوں قدموں کے نیچے سے ہو گا وہ خیال کرتا ہو گا کہ مجھ سے لیکن مجھ سے نہیں ہو گا۔ میرے دوست تو پرہیز گار ہیں۔ پھر ’’الاھیما‘‘ کا فتنہ ہو گا جو اس امت میں کسی کو نہیں چھوڑے گا مگر اس کو طمانچہ مارے گا جس وقت خیال کیا جائے گا کہ فتنہ ختم ہوا اور بڑھ جائے گا‘ آدمی صبح کو مومن ہو گا اور شام کو کافر یہاں تک کہ لوگ دوخیموں میں تقسیم ہو جائیں گے۔ ایک ایمان کا خیمہ جس میں نفاق نہ ہو گا اور ایک نفاق کا خیمہ جس میں ایمان نہ ہو گا۔ (مشکوٰۃ باب الفتن)۔
بھاگنے اور لڑنے کے فتنے میں تو ہم ان دنوں مبتلا ہیں۔ دنیا بھی اب دو خیموں میں تقسیم ہوتی جا رہی ہے۔ دنیا میں زیادہ سے زیادہ لو گ مسلمان ہو رہے ہیں یا زیادہ سے زیادہ لوگ ملحد اور سیکولر اور آخری معرکہ انھی دونوں کے درمیان برپا ہو گا۔ لیکن ان کے درمیان ایک اور فتنہ ہے جو بتایاگیا کہ ایک ایسا شخص برپا کرے گا جو اہل بیت رسول ہونے کا دعویٰ کرے گا۔ لیکن میرے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے پہچان بتا دی کہ میرے اہل بیت تو متقی یعنی پرہیز گار ہوتے ہیں۔