یہ بات سننے میں کچھ عجیب لگتی ہے کہ جنگ ختم ہونے کے بعد بھی کوئی فوجی لڑ سکتا ہے لیکن یہ سچ ہے کہ ایک جاپانی فوجی جس کا نام ہیرو اونوڈا ہے وہ جنگ ختم ہونے کے 29 سال بعد تک لڑتا رہا ۔
ہوا کچھ یوں کہ دوسری جنگ عظیم میں جاپان کو ہار کا سامنا کرنا پڑا توساری جاپانی افواج نے ہتھیار ڈال دیےمگر ہیرو اونوڈانے ایسا نہیں کیااور اپنی ہار ماننے اور ہتھیار ڈالنے سے انکار کردیا۔
اب آپ لوگ یہ سوچ رہے ہونگے کہ انہوں ہتھیار کیوں نہیں ڈالے ؟ ہوا دراصل یہ کہ ہیرو اونوڈا اپنے فوجی عہدے کے اعتبار سے ایک لیفٹیننٹ تھے۔
1945ء میںجب دوسری جنگ عظیم کا آغاز ہوا تو اس وقت کے جاپانی کمانڈر نےہیرو اونوڈا کوفلپائن کے جنگل میںبھیجنے کا فیصلہ کیا اور یہ حکم دیا کہ ـــ’’تم یہیں رکو اور یہاں آنے والے امریکی فوجیوں کی تمام سرگرمیوں پر نظر رکھو۔ لیکن تمہیں صرف نظر رکھنی ہے، ان پر نہ تو حملہ کرنا ہے اور نہ ہی کسی اور کارروائی میں حصہ لینا ہے، بس نظر رکھنی ہے‘‘اور پھر ہیرو اونوڈا سچائی کے ساتھ اپنے کمانڈر کے حکم کی تعمیل کر رہے تھے اور اس پر اتنی ثابت قدمی کے ساتھ قائم رہے کہ بہادری اور وفاداری کی ایک نئی داستان رقم کردی۔
اور 29 سال تک نہ تو وہ جگہ چھوڑی اور نہ ہی کسی دوسرے کا حکم ماننے کو تیار ہوئےبس 29 سال یہ ہی کہتے رہے کہ ’’میں اپنے کمانڈر کی حکم عدولی نہیں کرسکتا۔
مجھے میرے کمانڈر نے یہ جگہ نہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے، میں یہاں سے کہیں نہیں جاؤں گا۔ ہاں، اگر میرا کمانڈر خود مجھے یہاں سے ہٹنے کا حکم دے گا تو میںان کی بات فوراً مان لوں گا، میں صرف اپنے کمانڈر کا حکم ماننے کا پابند ہوں، کسی اور کا نہیں، یہی میری تربیت ہے اور یہی میرا فرض ہے‘‘۔
29 سال تک ہیرو اونوڈا نے جنگل کو ہی اپنا گھر بنالیا تھا اور اعلان کے باوجوداپنی ہار ماننے کو تیار نہ تھے اسی لیے29سال تک تن تنہا ریلا جنگلڑتے رہے۔
اتنے سال جب بھوک لگتی تو اس کے لیےکھانے کا انتظام کرنے کے لیے اونوڈا نے متعدد بار قریبی گاؤں کے گھروں سے چاول اور کیلے چوری کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھائی۔ پھر تو خوراک کی چوری کا یہ سلسلہ چل نکلا۔ ممکن ہے کہ گاؤں کے لوگ اسے جان بوجھ کر خوراک چوری کرنا کا موقع دیتے ہوں۔ کئی بار ایسا بھی ہوا کہ اونوڈا نے گاؤں والوں کی گایوں، بھینسوں وغیرہ کو گولی مار کر ان کا گوشت خشک کرکے مستقبل میں استعمال کے لیے رکھ لیا کرتے تھے۔
فروری1974ء میں ہیرو اونوڈا کی ملاقات ایک نوجوان سیاح نوریو سوزوکی سے ہوئی۔ وہ سابق فوجیوں کی تلاش میں وہاں آیا تھا۔ اس نے جنگل میں ایک صاف جگہ اپنا کیمپ لگایا اور خاموشی سے اونوڈا کا انتظار کرنے لگا۔
اس کے بعد ہیرو اونوڈا نے خود ہی اس سے ملاقات کی اور اونوڈا نے اس نوجوان سے مل کر کچھ دیر باتیں کیںاور جب اس سیاح کو یہ معلوم ہوا کہ یہ فوجی 29 سال سے یہاں ہے تو جیسے ہی یہ نوجوان سیاح جاپان پہنچا تو اس نے وہاں کی حکومت سے رابطہ کرکے انہیں اونوڈا کے بارے میں ساری صورت حال سے آگاہ کردیا جس میں بنیادی بات یہ تھی کہ نہ تو اونوڈا کو یقین ہے کہ جنگ ختم ہوچکی ہے اور نہ ہی وہ اپنے کمانڈر کے علاوہ کسی اور کا حکم ماننے کے لیے تیار ہے۔
پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ اس کے سابق کمانڈر کو جاپان سے اس کے پاس فلپائن کے جنگل میں اس جگہ لے آئیں جہاں وہ تین عشروں سے چھپے ہوئےتھےاورگوریلا جنگ بھی جاری رکھے ہوئے تھا۔
جب ہیروکا کمانڈر اس کے سامنے پہنچےاور انہوں نے خود ہیرو اونوڈا کو ہتھیار ڈالنے کے لیے کہا تو انہوں نے اپنے کمانڈر کے حکم کی فوری تعمیل کی اور 9 ,مارچ1974ء میں لوبنگ کے جزیرے پر قائم فلپائن فضائیہ اڈے پر فلپائن کے اس وقت کے صدر فرڈی ننڈ مارکوس کے سامنے اپنی فوجی تلوار پیش کرکے ہتھیار ڈال دئیے۔
حالانکہ کہ انہوں نے اپنی اس مہم جوئی کے دوران اس علاقے کے کم و بیش 30افراد ہلاک کیے تھےلیکن فلپائن حکومت نے ان کو معاف کردیا تھا۔پہلے ہیرو اونوڈا واپس جاپان گئے، پھر وہاں سے 1975ء میں برازیل میںایک کسان بن کر زندگی گزارنے لگے۔
آخرکار وہ 1984ء میں اپنے وطن جاپان واپس چلے گئے، جہاں انہوں نے بچوں کے لیے نیچر کیمپس قائم کیے۔
ہیرو اونوڈ ا کا کہنا تھا کہ’’ میں جنگل میں گزارے گئے اپنی زندگی کے 29 برسوں کو ضائع شدہ تسلیم نہیں کرتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ اگر میں نے وہ تجربہ حاصل نہ کیا ہوتا تو یہ زندگی اختیار نہ کرپاتا۔
یہ خوددار اور بہادر فوجی 16 مارچ 2014ء کو 91 سال کی عمر میں دل کا دورہ پڑنے کے باعث انتقا ل کرگیا۔