لاہور(ویب ڈیسک)جسم پر تلوں کے نشانوں اور انسانی شخصیت کا آپس میں گہر ا تعلق ہےمگر ان تِلوں کے چھپے راز صرف ماہرین ہی جانتے ہیں ۔ تلوں پر ماہرین کی تحقیق پرمبنی ایک رپورٹ ملاحظہ ہو۔’’آنکھ کے پپوٹوں پر تل ‘‘کے حامل افراد سفر کے دلدادہ ہوتے ہیں اور گھر سےدور ملازمت اختیار کرتے ہیں۔’’بھنوئوں کے ددرمیان پیشانی پر تل‘‘کے حامل افراداپنی پیشہ وارانہ زندگی میں تیزی سے ترقی کرتے ہیں اور انہیں اس حوالے سے بے شمار مواقع میسر آتے ہیں۔’’بھنوؤں کے نیچے تل کا ہونا‘‘ثابت کرتا ہے کہ آپ قابل اعتماد اور قائدانہ صلاحیتوں کے حامل ہیں’کے اوپر تل ‘‘والی خواتین اور مرد حضرات خوش خوراک اور حلقہ احباب میں مقبول ہوتے ہیں ۔’’گال یا اس کی اوپری ہڈ ی پر تل ‘‘کا ہوناثابت کرتا ہے کہ آپ رہنما اور لیڈر بننے کے دلدادہ ہیں۔’’ہتھیلی پر تل ‘‘کے حامل افراد اپنی زندگی میں مشکلات کا شکار رہتے ہیں مگر اپنی ناکامیوں پر قابو پا کر آگے بڑھنے کا عزم انہیں اچھی زندگی گزارنے کا حوصلہ دیتا ہے۔ جسم پر تلوں کے نشانوں اور انسانی شخصیت کا آپس میں گہر ا تعلق ہےمگر ان تِلوں کے چھپے راز صرف ماہرین ہی جانتے ہیں ۔ تلوں پر ماہرین کی تحقیق پرمبنی ایک رپورٹ ملاحظہ ہو۔’’آنکھ کے پپوٹوں پر تل ‘‘کے حامل افراد سفر کے دلدادہ ہوتے ہیں’’پاؤں کے تلوے میں تل‘‘رکھنے والی خواتین اور مرد حضرات کو زندگی میں طویل سفر درپیش آتے ہیں اور وہ اپنے حلقہ احباب میں مقبول ہوتے ہیں ، یہ خوش خوراک بھی ہوتے ہیں۔ٓپ نے سنا ہوگا کہ آنکھ پھڑکنا کچھ اچھا یا برا ہونے کی نشانی ہے۔اب یہ توہم پرستی ہے یا درست، اس بحث کو چھوڑیں، بس یہ جان لیں کہ آنکھ پھڑکنے کی وجہ کیا ہوتی ہے۔درحقیقت عام طور پر آنکھ پھڑکنا ہوسکتا ہے کہ ذہنی طور پر پریشانی کا باعث بنے مگر یہ کسی بیماری کے بجائے طرز زندگی، ایک وجہ ہوسکتی ہے۔طبی ماہرین کے مطابق آج کل لوگ اپنا بہت زیادہ وقت کمپیوٹر یا فون کی اسکرین کے سامنے گزارنے کے عادی ہوتے ہیں۔اور اس عادت کے نتیجے میں آنکھوں پر دباؤ بڑھتا ہے یا وہ خشک ہونےہے۔تاہم ایسا ہونے پر آنکھ پھڑکنے کے امکان بھی بڑھتے ہیں۔اسکرینوں سے ہٹ کر بہت تیز روشنی میں رہنا، آنکھ کی سطح یا اندرونی حصے میں خارش، جسمانی دباؤ، تمباکو نوشی، ذہنی تناؤ اور تیز ہوا کے نتیجے میں آنکھ پھڑکنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔اگر آنکھ کی اس حرکت سے پریشان ہیں تو آنکھوں کو کچھ وقت تک آرام دیں۔اگر ممکن ہو تو اپنے سے کچھ دیر کے لیے وقفہ کریں اور شام میں ایسی سرگرمیوں کو اپنائیں، جس میں اسکرینوغیرہ کا کوئی دخل نہ ہو۔بہت کم ایسا ہوتا ہے جب آنکھ پھڑکنا کسی عارضے کی نشانی ہو اور وہ بھی اس وقت جب مناسب آرام اور اسکرین وغیرہ سے دوری کے باوجود یہ سلسلہ برقرار رہے۔