لاہور : عمران احمد خان نیازی کھلاڑی زیادہ اچھے ہیں یا سیاستدان؟ کھلاڑی تو سب مانتے ہیں اور اس کا بڑا ثبوت سنہ 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ ہے۔ ان کے بارے میں ایک بات بڑی واضح ہے کہ اپنی دھن کے پکے ہیں۔ جو ہدف اپنے لیے چن لیتے ہیں اسے پورا کیے بغیر آرام سے نہیں بیٹھتے۔
سنہ 1992 میں ٹارگٹ اگر ورلڈ کپ جیتنا تھا تو اس کے لیے کسے ٹیم میں رکھنا ہے کسے نہیں اس کا فیصلہ کر کے اس پر ڈٹ جاتے تھے۔ ساری دنیا اور سینیئرز چاہیے مزاحمت کرتے رہیں جیسے کہ میانداد کے بارے میں ایک مرتبہ تنازع کھڑا ہوا تھا لیکن وہ اپنی ہی منواتے تھے۔ اسے دھن کے پکے کہیں یا ضدی پن، وہ جو ہدف بنا لیتے تھے اسے سے ہٹتے نہیں تھے۔اب سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ سیاست بلکہ بطور وزیر اعظم ان کا یہ خاصہ ان کے لیے مفید ثابت ہو گا یا نہیں۔ 22 سال قبل ابتدائی نہ نہ کے بعد اچانک سیاست کے میدان میں اترنے کے بعد حکومت بنانا یا وزیر اعظم بننا ان کا ہدف بن گیا تھا اور بالآخر یہ ہدف انھوں نے حاصل کر لیا ہے۔ ایک اچھے کھلاڑی کے لیے سب سے بڑی بات جیت ہوتی ہے۔ وہ کامیابی کے لیے طویل مشقت اور تن من دھن کی بازی لگا دیتا ہے۔ جیت اس کے لیے کسی بھی کھیل کی انتہا ہوتی ہے اس کا آغاز نہیں۔ مرکز میں حکومت کے بڑے ہدف کے راہ میں انھیں چھوٹی چھوٹی کامیابیاں صوبہ خیبر پختونخوا میں سنہ 2013 کے انتخابات میں اقتدار کا ملنا بھی تھا۔
اگرچہ تحریک انصاف تو اس صوبے میں زبردست ترقی کے گن گاتی ہے اور 25 جولائی کی بڑی کامیابی کو اسی کا مرہون منت قرار دیتی ہے لیکن عمران کے ناقدین کے مطابق انھوں نے پشاور میں نیٹ پریکٹس کا موقع گنوایا۔ پشاور کو بنی گالہ سے چلایا اور وہاں جا کر معاملات کو اپنے ہاتھوں میں لینے میں بظاہر کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔عمران کی سابق زوجہ ریحام خان نے اپنی کتاب میں بھی لکھا کہ انھوں نے عمران خان سے پشاور رہ کر صوبے کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرنے کی تجویز کئی مرتبہ دی لیکن خان صاحب نے ایک نہ سنی۔ اس کی بظاہر ایک ہی وجہ انھوں نے مجھے ایک نجی ملاقات میں بتائی تھی کہ پھر وہ مرکز میں توجہ نہ دے سکتے۔ یعنی بڑا ہدف ان کے نزدیک ہمیشہ سے مرکز رہا ہے۔عمران خان نے اگر کچھ سیکھا تو وہ یہ تھا کہ احتساب کے لیے نئے ادارے نہیں چل پائیں گے۔ کرپشن کا اس صوبے میں خاتمہ تو نہیں ہوا ہاں تحریک انصاف کو سمجھ آ گئی کہ آپ کے لیے پرانے ناکارہ پرزوں کو ہی دوبارہ کارآمد بنانا بہتر ہے۔ پاکستان کا 22 واں وزیر اعظم بنے والا عمران خان کون سا عمران ہو گا، کھلاڑی یا سیاستدان؟
امید ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ کھلاڑی نہیں ہوں گے جو صرف جیت کے لیے کھیلتا ہے۔ کیا وہ جیت کے بعد بھی حکومتی سرگرمیوں کو سنجیدگی سے لیں گے یا نہیں۔ ایک کھلاڑی نہیں بلکہ وزیر اعظم کی طرح اجلاس در اجلاس شرکت کرنی ہو گی، ملکی اور غیرملکی وفود سے ملاقاتیں کرنا ہوں گی، ماضی کے برعکس جیب میں شناختی کارڈ پڑی واسکٹ میں قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں باقاعدگی سے جانا بھی ہو گا اور معلوم نہیں کیا کچھ کرنا ہو گا۔ اب تک تو انھیں دن میں ایک پارٹی میٹنگ ہی کرتے دیکھا ہے۔گذشتہ دنوں ایک برطانوی اخبار سے انٹرویو میں ان کا کہنا تھا کہ وہ سوشل لائف کے لیے اب بہت بوڑھے ہو چکے ہیں۔ ان کے حامی ایک سینیئر صحافی نے یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ انھیں ’خیرخواہ جتنی زیادہ احتیاط کی تلقین کرتے ہیں، اتنی ہی بےاحتیاطی موصوف کرتے ہیں‘۔عمران خان کی ایک اور عادت جو انھیں مشکل میں ڈال سکتی ہے وہ ان کی کسی سے ’ڈکٹیشن‘ نہ لینے کی ہے۔ سنتے تو وہ شاید سب کی ہیں لیکن ہمیشہ کرتے اپنی ہی ہیں۔ اس صورت حال میں وہ دیگر ریاستی اداروں کے لیے کتنے قابل قبول ہوں گے یہ واضح نہیں۔
عمران خان کے ساتھ جڑا ایک سوال یہ بھی ہے کہ انھیں آخر سیاست کے دشت میں منزل تک پہنچنے میں اتنا وقت کیوں لگا۔ پاکستان میں تو کئی بڑے سیاستدان آنا فاناً یا تو موروثی سیاست یا پھر اسٹیبلشمنٹ کے راستے اقتدار کے ایوانوں کی سیر کرنا شروع کر دیتے ہیں تو پھر انھیں یہاں پہنچنے میں اتنی دیر کیوں لگی؟کچھ مبصرین کے خیال میں اپنی سیاست کی ابتدائی نرسری میں وہ اعلیٰ و شاید کتابی نظریات کے قیدی رہے۔ آئیڈیلزم کے گرویدہ رہے۔ اپنے نظریات پر کسی قسم کی سودے بازی کی کوشش سے باز رہے لیکن سنہ 2013 کے عام انتخابات میں جیت کو اتنا قریب سے دیکھنے کے بعد شاید انھوں نے اس سے دوبارہ دور نہ جانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ پھر کیا تھا نظریات اور اپنے ہی بنائے ہوئے اصولوں میں دھیرے دھیرے نرمی دکھانا شروع کی اور آخر میں ’الیکٹیبلز‘ کو بھی اپنی صف میں لا کھڑا کیا۔ یہی سمجھوتے شاید انھیں وزیراعظم ہاؤس کی دہلیز پر لے آئے ہیں۔وہ مزید کتنا بدلتے ہیں یا نہیں اس کے لیے ہمیں زیادہ انتظار شاید نہ کرنا پڑے۔ ان کے ہنی مون پیریڈ میں ہی اس کے اشارے مل جائیں گے۔ جیتنا شاید آسان تھا لیکن عوام کی توقعات کا پہاڑ سر کرنا اب اس کھلاڑی کا اگلا ہدف ہونا چاہیے۔