آج کل سیاسی موسم عروج پر ہے۔ سیاست کے کرتا دھرتا آئے دن میلہ سجاتے ہیں۔ بلاشبہ یہ سیاسی جلسوں کا موسم ہے۔ جیسے جیسے گرمی بڑھ رہی ہے ویسے ویسے سیاسی پارہ چڑھتا جارہا ہے۔ سیاسی جلسہ سے کسی سیاسی جماعت کی طاقت کا پتہ چلتا ہے۔ ہمارے ہاں جلسوں کا انداز ابھی تک روایتی ہے، جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں پارٹی سربراہان ٹی وی پر اپنا اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ اس طرح پارٹیوں کا لاکھوں نہیں، اربوں روپیہ بچ جاتا ہے؛ اور یہی پیسہ پارٹیاں دوسرے کاموں میں خرچ کرتی ہیں۔
اب انٹرنیٹ کا زمانہ ہے ہر کسی کے پاس موبائل ہے۔ سیاسی جلسوں کی تقاریر اور ٹاک شوز براہ راست سنے جا سکتے ہیں۔ ہر الیکشن کے قریب آتے ہی ہمارے ہاں ایک انوکھا بازار لگتا ہے۔ جسے ’’جمہوریت کا بازار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس بازار میں الیکشن جیتنے والے گھوڑوں کی بولی لگتی ہے۔ بولی کا انداز بھی بڑا دلچسپ اور نرالا ہے۔ اس میں رنگ، نسل، قد، کاٹھ یا خوبصورتی کو نہیں بلکہ صرف الیکشن جیتنے کی صلاحیت دیکھی جاتی ہے۔ اگر ایک اصطبل میں قیمت پوری نہ لگے تو دوسرے اصطبل کا رخ کیا جاتا ہے، دوسرے میں نہ لگے تو تیسرے کا۔ عرف عام میں انہیں سیاسی فصلی بٹیرے کہا جاتا ہے جو ہوا کا رخ دیکھ کر اپنا رخ بدل لیتے ہیں۔
میں آپ کو ایک دلچسپ کہانی سناتا ہوں۔ ایک شخص شدت مرض سے کوما میں چلا گیا اور پانچ سال کوما میں رہا۔ کوما میں جانے سے پہلے وہ پیپلزپارٹی کا جذباتی کارکن تھا۔ کوما سے ہوش آنے کے چند دن بعد وہ مکمل صحت یاب ہوگیا اور نارمل زندگی گزارنے لگا۔ اس کے علاقے میں ایک سیاسی جلسہ تھا، اسے پتہ چلا تو اس کے جذبات کی انتہا نہ رہی اور وہ خوشی خوشی جلسہ میں شرکت کےلیے چلا گیا۔ جب اس نے اپنے رہنماؤں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن اور بابر اعوان کو دیکھا تو فرط جذبات میں ‘جئے بھٹو’ کے نعرے مارنے شروع کر دیے۔ لوگوں نے اس کی طرف حیرانی سے دیکھا اور کہا کہ یہ پی پی کا نہیں بلکہ پی ٹی آئی کا جلسہ ہے، اور یہ لوگ اب پی پی سے پی ٹی آئی میں شامل ہوچکے ہیں۔ پی ٹی آئی کے جیالوں نے اسے پاگل سمجھا اور دھکے دینے شروع کردیے۔ اس نے کہا کہ یہ تو وہ پی پی رہنما ہیں جنہوں نے بی بی کے ساتھ مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں؛ اور ان کا منشور روٹی، کپڑا، مکان تھا۔
الیکشن قریب آتے ہی سیاسی وفاداریاں بدلنے کا رجحان زور پکڑ گیا ہے۔ اب پی ٹی آئی کی ہوا ہے۔ ن لیگ، پی پی، ق لیگ اور دوسری جماعتوں کے رہنما جوق در جوق پی ٹی آئی میں شامل ہو رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کو بھی ٹکٹوں کے سلسلے میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔ جو لوگ سالوں سے پی ٹی آئی کے لیے کام کر رہے ہیں، ٹکٹ ان کا حق بنتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ تحریک انصاف بھی پی پی اور نون لیگ کا آمیزہ بن کر رہ جائے۔
تحریک انصاف کے بڑوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ندیم افضل چن، جسے پی پی نے نام و شہرت دی، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین اور وزیر بنایا، وہ اگر پی پی کا نہیں رہا تو تحریک انصاف کا بھی نہیں رہے گا۔ ہمارے ہاں الیکٹیبلز کا کوئی نظریہ نہیں، وہ صرف اپنا مفاد دیکھتے ہیں اور مشکل وقت میں پارٹی کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔ حکومت کی مدت پوری ہونے میں مشکل سے ایک ہفتہ باقی ہے جس کے بعد حکمراں جماعت کی حالت قابل رحم ہوگی۔ کئی ن لیگی ایم این ایز اور ایم پی ایز نے اپنے جلسوں میں شرکت کرنا چھوڑ دی ہے جس سے ان کی ‘وفاداری’ کا پتہ چلتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی متوقع ہے۔ کچھ سیاسی خاندان وفاداریاں بدل چکے ہیں جبکہ اکثر پر تول رہے ہیں۔
حال ہی میں تحریک انصاف نے اپنا سو دن کا منشور دیا ہے۔ جس میں جنوبی پنجاب کا صوبہ بنانا بھی شامل ہے۔ وطن عزیز میں اس وقت ایک صوبہ نہیں بلکہ زیادہ صوبوں کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں پنجاب کے تین، خیبر پختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے دو دو صوبے بننے چاہئیں اور گلگت بلتستان صوبہ کو قانونی حیثیت دی جائے۔ دنیا میں ایسے کئی ممالک ہیں جن کی آبادی اور رقبہ ہم سے کم لیکن صوبے زیادہ ہیں۔ سیاسی موسم گرم ہے، دیکھیں سیاست کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔