لاہور (ویب ڈیسک) ملک میں عوام کو درپیش مسائل سنگین ہونے پر وزیر اعظم نے عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ وزیر اعظم کی تشویش کا فوری سبب کراچی کی حالت زار اور پنجاب میں پولیس کا ماورائے قانون طرز عمل ہے۔ ایک ایسی حکومت جو اقتدار میں آنے سے قبل عوامی بہبود روزنامہ 92 کے ایک اداریے کے مطابق ۔۔۔۔۔ کا عظیم الشان پروگرام متعارف کرانے کا وعدہ کرتی رہی ہو، اس کے لیے معمول کے قانونی نظم اور گورننس کے ذریعے عوامی شکایات کا ازالہ نا ممکن ہو جائے تو حکومتی عمال اور وزیر اعظم کا اظہار تشویش بے جا معلوم نہیں ہوتا۔ وزیر اعظم کی زیرصدارت کراچی کے مسائل سے متعلق اجلاس میں کراچی سے منتخب وزراء اور اراکین اسمبلی نے شرکت کی۔ وزیر اعظم نے وزیر قانون جناب فروغ نسیم کی سربراہی میں خصوصی کمیٹی قائم کی ہے جو شہر کو مسائل سے پاک کرنے کے لیے لائحہ عمل ترتیب دے گی۔ کراچی کا سب سے بڑا مسئلہ کوڑا کرکٹ ہے۔ جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر پڑے ہیں۔ کروڑوں روپے قیمت کے مکانوں کے سامنے تعفن اٹھ رہا ہے۔ شہر کے چھوٹے بڑے نالوں میں کوڑا جمع ہو کر گندے پانی کی نکاسی میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ حالیہ موسم برسات میں کراچی کے شہریوں کی مشکلات پہلے سے بڑھ گئیں۔ شدید بارشوں سے جمع پانی کو نکاسی کا راستہ نہ ملا اور یوں بارشی پانی، کوڑے اور گندے پانی نے مل کر سارے شہر کو دلدل کوڑے دان میں بدل دیا۔ یہ اس شہر کا حال ہے جس کی آبادی پونے دو کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور جسے پاکستان کا معاشی دارالحکومت کہا جاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا شہر صاف نہیں ہو پا رہا۔ بحریہ ٹائون انتظامیہ نے چند برس قبل اس کی صفائی کا انتظام سنبھالا مگر پھر بھاری پتھر چوم کر رکھ دیا۔ میئر کراچی وسیم اختر نے منتخب ہونے کے بعد شہر کی صفائی کا وعدہ کیا مگر یہ وعدہ ان کے اختیارات نہ ہونے کے واویلہ میں دب کر رہ گیا۔ وفاقی حکومت اہل کراچی کی مدد کرنا چاہتی ہے لیکن آئینی پابندیاں اس کو براہِ راست مداخلت کی اجازت نہیں دیتیں۔ ضلعی حکومت اور وفاق کے درمیان صوبائی حکومت ہے۔ کراچی شہر طویل عرصہ تک جبر کے زیر تسلط رہا ہے۔ اس کے شہریوں کو آزادانہ ووٹ کا حق ملا تو جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم اور تحریک انصاف کو نمایاں مینڈیٹ دیا۔ پیپلزپارٹی کو اس کی سابق کارکردگی قابل رشک نہ ہونے پر کراچی میں قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی۔ کراچی کے میئر کا تعلق ایم کیو ایم پاکستان سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت نے ان کے مالیاتی اور انتظامی اختیارات اس لیے غصب کر رکھے ہیں تا کہ وہ اہل کراچی سے انتقام لے سکے۔ وجہ کچھ بھی ہو سچ یہی ہے کہ صوبائی اور ضلعی حکومت کے جھگڑوں اور ایک دوسرے سے عدم تعاون کی شکایات سے اہل کراچی کا کچھ بھلا نہیں ہوا۔ ملک میں کاروباری سرگرمیاں سست روی کا شکار ہیں۔ کراچی میں صحت و صفائی کی بری حالت وبائی امراض کا باعث بن سکتی ہے۔ مسائل کی وجہ سے شہر میں نئی سرمایہ کاری اور کاروبار پیدا نہیں ہو رہے۔ جناب فروغ نسیم کا تعلق خود کراچی سے ہے اس لیے امید کی جا سکتی ہے کہ ان کی سربراہی میں اس میگا سٹی کی حالت بہتر بنانے کا قابل عمل منصوبہ سامنے آئے گا تا ہم اس سے بھی ضروری امر یہ ہے کہ صوبائی حکومت کو کراچی کے معاملے میں متحرک کردار ادا کرنے پر قائل کیا جائے۔ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ بائیس تئیس سال کی سیاست میں نظام بدلنے کے نعرے میں جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت دی وہ کرپشن کا خاتمہ اور پولیس اصلاحات ہیں۔ تحریک انصاف کو پورے ملک سے ان لوگوں نے ووٹ دیئے جو سماجی عدم مساوات، ناانصافی اور پولیس کے بدبودار نظام سے عاجز آ چکے تھے۔ وزیر اعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ملک کی آدھی آبادی رکھنے والا صوبہ پنجاب تھا جہاں مدت سے ایک ہی جماعت کی حکومت رہنے سے انتظامی اور سیاسی دائرہ کار ایک دوسرے میں مسلسل مداخلت کر رہے ہیں۔ پنجاب کو اچھی گورننس اور متحرک قیادت دیئے بغیر 10کروڑ کی آبادی کا دل نہیں جیتا جا سکتا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پنجاب پولیس نے یکے بعد دیگرے ظلم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ کئی شہروں میں اے ٹی ایم مشینوں کو توڑ کر رقم نکالنے والے صلاح الدین کو جس طرح سفاکانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس سے صلاح الدین کا مجرم ہونا پس منظر میں چلا گیا۔ چوری کے الزام میں گرفتار عامر مسیح کو پولیس اہلکار ہسپتال داخل کرانے تک مارتے پیٹتے رہے۔ اس مار پیٹ نے عامر کی جان لے لی۔ وہاڑی میں خاتون کو چوری کے الزام میں نجی ٹارچر سیل میں اذیت دی گئی۔ ان جیسے بے شمار واقعات میں دربار بابا فرید پر سب انسپکٹر کی ایک بزرگ شہری سے بدتمیزی اور ایک انتہائی ضعیف خاتون سے ایک اے ایس آئی کی بدتمیزی کے واقعات بھی شامل ہیں۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ آئی جی ایسے واقعات کی روک تھام کا انتظام کرتے مگر انہوں نے فوری طور پر تھانوں میں موبائل فون لے جانے پر پابندی کا حکم جاری کر دیا تا کہ بے بس اور پولیس کے ہاتھوں پریشان افراد کوئی ثبوت کیمرے میں محفوظ نہ کر سکیں۔ وزیر اعظم کی طرف سے پولیس کا رویہ درست کرنے کے لیے عملی اقدامات کی ہدایت خوش آئند ہے تا ہم سابق تجربات کو دیکھتے ہوئے پولیس کا قبلہ درست کرنے کے لیے وزیر اعظم کو خود نگرانی کرنا ہو گی، ورنہ تبدیلی کے خواب ہسپتالوں اور قبروں میں جا پہنچیں گے۔