تقریباً پانچ سال قبل پاکستان میں دہشت گردی، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز اور تخریب کاری کی وارداتیں عام تھیں۔ ہر طرف اک خوف و ہو کا عالم تھا۔ عوام نہ صرف معاشی بلکہ دماغی طور پر بھی مفلوج ہوکر رہ گئے تھے۔ اگر موٹرسائیکل سوار کے قریب سے بھی کوئی دوسرا موٹرسائیکل سوار تیزی سے گزرتا تو ایک دوسرے کو مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ 2012/ 2013 میں، جب میں ایک نجی ٹی وی چینل سے بحیثیت کرائم رپورٹر وابستہ تھا اور اسی چینل کے ایک پروگرام کا اسکرپٹ رائٹر اور ریسرچر بھی تھا، ہفتے میں 4 پروگرام ہوتے تھے جن میں سے 2 یا 3 پروگراموں میں کراچی، کوئٹہ اور پشاور کے کشیدہ حالات پر ہی بحث ہوتی؛ اور کراچی میں جس روز 10 سے 12 قتل ہوتے، اس روز ٹارگٹ کلنگ کی خبر کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی تھی۔ جب کہ حکام بالا بھی اس روز کا موازنہ گزشتہ روز سے کرکے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے تھے کہ آپ نے دیکھا، کل کی نسبت تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔ الغرض عوام مایوس ہوگئے تھے لیکن انتخابات 2013 کے بعد حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ وقت نے کروٹ لی اور ملک میں بم دھماکوں، ڈرون حملوں، ٹارگٹ کلنگ، اسٹریٹ کرائمز، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، ہڑتالوں اور جلاؤ گھیراؤ جیسے دیگر متعدد واقعات و سانحات میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی۔ عوام نے سُکھ کا سانس لیا اور حکمرانوں کے چرچے زبان زدِعام ہونے لگے۔
حکمران بھی حالات کی بہتری پر اپنی مثبت پالیسیوں کا راگ الاپنے لگے اور اپوزیشن کی جماعتوں کے منہ بھی اس حوالے سے بند ہوگئے؛ تاہم اپوزیشن کا کام اختلاف ہوتا ہے اس لیے عوام کی دیگر پریشانیوں کا حوالہ دے کر حکومت پر تنقید کے نشتر برسائے جاتے رہے۔ ان تمام تر صورتحال کے برعکس یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ قتل وغارت کا سلسلہ تھما نہیں بلکہ چھپ گیا ہے۔
2 دسمبر کو پنڈی بھٹیاں میں رونما ہونے والے ایک دلخراش واقعے نے خواب خرگوش میں سوئے ہوئے حکمرانوں اور عوام کو جھنجوڑ کر رکھ دیا۔ واقعے میں ایک ماں نے اپنے 3 معصوم پھولوں کو نہ صرف قتل کیا بلکہ ان کی لاشوں کو دریا بُرد کر دیا اور وجہ قتل غربت کو قرار دے دیا۔ یہ واقعہ حکمرانوں کے منہ پر طمانچہ تو ہے ہی، لیکن ہمارا معاشرہ بھی اس کا ذمہ دار ہے۔ اسی واقعے نے مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کردیا ہے کہ قتل اب بھی ہورہے ہیں لیکن طریقے بدل گئے ہیں۔ پنڈی بھٹیاں کا واقعہ رواں دورِحکومت میں انوکھا واقعہ نہیں بلکہ اس طرح کے درجنوں واقعات ان 4 سال میں رونما ہوچکے ہیں۔
جس طرح لائن آف کنٹرول، ورکنگ باؤنڈری اور خیبرایجنسی میں سرحد پار سے پاکستانی چوکیوں پر حملوں میں شہید ہونے والے پاک فوج کے جوان اِس قوم کے بیٹے ہیں۔ اسی طرح کراچی کے منگھوپیر، اتحاد ٹاؤن، سپرہائی وے اور گڈاپ کے علاقوں میں آئے روز پولیس مقابلوں میں ہلاک ہونے والے مبینہ دہشت گرد بھی آخر کسی ماں کے بیٹے، بہن کے بھائی اور بیٹی کے باپ ہوتے ہیں۔ پشاور کی زرعی یونیورسٹی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں 9 طالب علم کی شہادت، سندھ کے دیہی علاقوں میں آئے روز کاروکاری کے الزام میں قتل کئے جانے والے جوڑے، بلوچستان کے ضلع تربت میں حصولِ رزق کی غرض سے بیرون ملک جانے کے خواہشمند قتل ہونے والے نوجوان، لاہور کے ماڈل ٹاؤن میں اپنے ہی محافظوں کے ہاتھوں موت کے گھات اترنے والے 14 شہری، پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے میں شہید ہونے والے اور تھر میں بھوک و غربت کے باعث تڑپ تڑپ کے مر جانے والے بچے، سب قتل ہی تو ہوئے ہیں۔
عوام کے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری ریاست کی ہے لیکن ہمارے حکمران لندن، دبئی اور سوئٹزرلینڈ سمیت متعدد ممالک میں بھیجے گئے پیسوں اور اپنی جائیدادوں کا دفاع کرنے میں مصروف ہیں۔ اپنے سیاسی حریفوں کی غلطیاں اور ناکامیاں جمع کرکے ان پر تبصرے کرنا، اِن کے بیانات کا جواب دینا بھی تو حکمرانوں کے فرائض میں شامل ہے۔ آخر عوام کے دیئے گئے ٹیکسوں سے اکٹھے ہونے والے پیسوں کا حساب کتاب بھی تو کرنا ہوتا ہے۔ گزشتہ حکومت کو موردِ الزام ٹھہرانا، رواں دور میں اپنے کارنامے گنوانا اور آئندہ انتخابات کےلیے جلسے کرنے میں وقت تو لگتا ہے، سیاستدانوں کو کہاں فرصت کہ ایک عام آدمی کو اپنے پاس بٹھائیں اور ان کے مسائل و مشکلات سنیں۔
عشرہ مبشرہ کی فہرست میں شامل صحابی رسول، خلیفہ دوم حضرت عمرِ فاروقؓ نے فرمایا تھا (مفہوم): ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمرؓ اس کا جوابدہ ہوگا۔‘‘ لیکن آج کے حکمران حضرت عمرؓ کے اِس فرمان سے آشنا ہونے کے باوجود عملی طور پر کوسوں دور ہیں۔ اگر صحابی رسولﷺ ایک جانور کے پیاسے مرنے پر خود کو اللہ کی بارگاہ میں جوابدہ سمجھتے ہیں تو ہمارے حکمران بھوک، بے روزگاری و افلاس سے ہزاروں کی تعداد میں موت کو گلے لگانے والے انسانوں کا حساب کِس منہ سے دیں گے؟ اللہ کو کیا منہ دکھائیں گے