جنرل سلام میری باتوں کو نہائت غور اور دلچسپی سے سن رہے تھے۔ کہنے لگے: ”کرنل جیلانی ! آپ نے مجھے متاثر کیا ہے!“…. میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ پھر بات اسلام اور پاکستان پر آ گئی۔ پکے مسلمان نکلے انڈیا کے خلاف تادیر باتیں کرتے رہے پاک فوج کے اعلیٰ عہدے سے ریٹائرڈ افسر لیفٹیننٹ کرنل (ر) غلام جیلانی خان اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور میں حیران ہو کر ان کو سنتا رہا۔ پھر معاً کہنے لگے: ”آپ سے بھی غلطیاں ہوئیں اور ہم سے بھی۔ لیکن اب ہم پچھتا رہے ہیں“۔ میں نے کہا: ”سر! کیا آپ کی یہ باتیں میں واپس جی ایچ کیو جا کر متعلقہ لوگوں میں بتا سکتا ہوں؟“…. وہ بولے: ”بعض باتیں دل سے نکلتی ہیں۔ ان کو دل ہی میں رکھنا چاہیے“…. میں سمجھ گیا! پھر عالمِ اسلام کی باری آئی تو کہنے لگے: ”امریکہ، اسرائیل اور بھارت مسلمانوں کے خیرخواہ نہیں۔ ایران عراق جنگ میں فتح صرف امریکہ کی تھی۔ امریکہ اسرائیل کو مضبوط کرنا چاہتا تھا اور اس کے لئے ایران کو کمزور کرنا ضروری تھا، جو کیا گیا۔ پھر یہ کہہ کر بھی مجھے حیران کردیا کہ ہزاروں بنگلہ دیشی افغانستان میں جنگ لڑتے رہے ہیں اور وہ اب خود بھی افغانستان جا کر رضاکارانہ لڑنا چاہتے ہیں۔ کوسٹر میں تمام آفیسرز ہماری طرح اونچی نیچی آوازوں میں محوِ گفتگو تھے۔ ایرانیوں نے ایک دو بار میری طرف دیکھا۔ میں نے ارادتاً منہ پھر لیاکہ مبادا بلوا لیں۔ ویسے ان کے ساتھ کوئی خالی سیٹ بھی خالی نہیں تھی اور ادھر ساری گفتگو انگریزی زبان میں ہو رہی تھی اور وہ ایرانی بھی پرشین میں دل کی بھڑاس نکال رہے تھے۔پھر میں نے جنرل سلام سے سے آہستگی سے پوچھا کہ 1968ء میں میری کور میں جو مشرقی پاکستان کے کورس میٹ تھے، ان کا کیا بنا؟…. اور وہ آج کس حال میں ہیں۔ انہوں نے نام پوچھے تو میں نے بتایاکہ ایک کا نام مقبول تھا، دوسرے کا انیس الزماں تھا اور تیسرے اشرف الزمان تھے۔ ہم نے اپر ٹوپہ مری میں 1969ء میں اکٹھے تین ماہ کا اے ای سی آفیسرز کا بنیادی کورس کیا تھا۔ جنرل صاحب یہ سن کر سوچ میں پڑ گئے اور پھر بولے: ”انیس تو میجر ہے اور باقی دونوں 1971ء کی جنگ میں مارے گئے“۔ جنرل سلام خود 31ویں لانگ کورس کے ہیں جو شائد 1962ء یا 1963ء میں پاس آﺅٹ ہوا تھا۔ صاحبزادہ یعقوب خان کی بڑی تعریف کی کہ جب وہ کور کمانڈر تھے تو میں ان کا جی ایس او-3 تھا۔ جب تک وہ وزیر خارجہ ہیں، افغانستان کا مسئلہ پاکستان کی امیدوں کے مطابق حل ہو گا۔ مرحوم ضیاء الحق کی اسلام پسندی کے مداح تھے۔ کسی بات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ روزِ حشر حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہ اللہ کے سامنے جا کر کہیں گی کہ یا اللہ تو نے میرے بیٹے حضرت امام حسین علیہ السلام اور میرے سارے کنبے کو شہید کردیا کیا قصور تھا ان کا؟ خدا کو ترس آئے گا اور وہ پوچھے گا: ”اب کیا مانگتی ہو؟“ تو وہ کہیں گی: ”امتِ مسلمہ کو بخش دے۔ بس میں اور کچھ نہیں مانگتی“۔ اسی طرح کے سوال جواب چلتے رہے۔ منزل نزدیک آرہی تھی، اس لئے محفل اب کچھ تفریحی باتوں کے تذکروں کی طرف بھی جا رہی تھی۔ ایک سوال کے دوران کہا: ”حضرت محمدﷺ اللہ سے سوال کیا بلکہ درخواست کی کہ میری امت کو بخش دے، کہا بخش دیا۔ پھر درخواست کی کہ ان کو دنیا کی ساری نعمتیں عطا کر، کہا کر دیں…. پھر آخر میں درخواست کی کہ اے اللہ میری قوم کو یک جہتی عطا کر…. اس پر خدا خاموش ہوگیا…. اب ہم ہیڈ کوارٹر 23 ڈویژن میں پہنچ گئے جو مٹھہ ٹوانہ کے نزدیک قائم کیا گیا تھا…. میں نے گھڑی پر نگاہ ڈالی۔ دن کے ایک بج کر 20منٹ ہو رہے تھے۔