اسلام آباد: انتہا پسندی کے سدباب اور دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جاری کردہ متفقہ قومی بیانیہ و فتوے ’پیغام پاکستان‘ میں اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان کے نام انہیں بتائے بغیر شامل کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
اسلام آباد میں چیئرمین پروفیسر ڈاکٹر قبلہ ایاز کی صدارت میں اسلامی نظریاتی کونسل کا اجلاس ہوا۔ قومی بیانیہ و فتویٰ کی تیاری میں اعتماد میں نہ لینے پر اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان پھٹ پڑے۔ ارکان نے کہا کہ انہوں نے بیانیے اور فتوے کا مسودہ نہ دیکھا نہ دستخط کئے تو پھر ان کے نام کیوں شامل کردیئے گئے، معاملے کی تحقیقات کروائی جائیں۔ کونسل کے رکن خورشید ندیم نے کہا کہ اچھا کام بھی اگر غلط طریقے سے کیا جائے تو اس سے غلط تاثر جائے گا۔ زاہد قاسمی نے کہا کہ میرے توجہ دلانے پر ایوان صدر نے کونسل کے ارکان کو مدعو کیا تھا لہذا اب نیا تنازعہ نہ کھڑا کریں۔ کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کونسل کے ارکان کو اس معاملے کی تحقیقات کی یقین دہانی کرائی۔ بعدازاں اسلامی نظریاتی کونسل کے ارکان نے مسودے پر دستخط نہ کروانے کے تحفظات کے باوجود قومی بیانیے و فتوی کی تائید کردی۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے قصور واقعے کی بھی شدید مذمت کی۔ چیئرمین کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز نے کہا کہ 7 سالہ زینب کے ساتھ درندگی اور تشدد کا خوفناک کھیل کھیلا گیا، قصور واقعہ کو پولیس کی ناکامی قرار دے کر اس کی شدت کم نہیں کی جاسکتی، سانحہ قصور ہماری معاشرتی اقدار کے دردناک زوال کا مظہر ہے، افسوس ہماری جامعات معاشرتی مسائل کو علمی میدان کا موضوع بنانے میں کامیاب نہیں ہوئیں۔ کونسل نے کہا کہ فتوی و بیانیہ آئین پاکستان کا عکاس ہے، ملک میں مسلح جدوجہد سے شریعت کا نفاذ جائز نہیں، انتہا پسندی و شدت پسندی کو مسترد کرتے ہیں، جہاد کا اختیار صرف ریاست کو ہے، نفاذ شریعت کے لئے طاقت کا استعمال بغاوت کے زمرے میں آتا ہے، اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر قانون سازی کی جائے، مولانا فضل الرحمن اور مولانا عبد المالک نے کونسل سفارشات پر عملدرآمد کا درست مطالبہ کیا۔ واضح رہے کہ گزشتہ روز ایوان صدر میں انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کے زیراہتمام متفقہ قومی بیانیہ کے حوالہ سے شائع ہونے والی کتاب ’’پیغام پاکستان‘‘ کا اجراء ہوا جس میں 18 سو سے زائد علماء کرام کا متفقہ فتویٰ شائع کیا گیا اور اس میں دہشت گردی، خونریزی اور خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔