بارہ مئی 2013 کے انتخابات میں خان صاحب پاکستان کے وزیر اعظم نہ بن سکے‘ لیکن 7 دسمبر 2013 کو دہلی میں ہندوستان ٹائمز کے زیر اہتمام گیارہویں لیڈر شپ سمٹ سے خطاب میں انہوں نے پاک بھارت سرحد پر مشترکہ سول، نیوکلیئر پلانٹ لگانے کی تجویز پیش کی تھی۔
کرن تھاپر سے 2011 کے انٹرویو اور دہلی میں 2013 کے خطاب کا حوالہ ہم نے اس لیے دیا کہ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے نیک خواہشات، کوئی وقتی ابال ہے، نہ دنیا کو متاثر کرنے کے لیے ایک ڈپلومیٹک موو، بلکہ یہ ان کی سوچی سمجھی رائے ہے جس کے دیانتدارانہ (اور بے باکانہ) اظہار میں انہیں کبھی عار نہیں رہی۔ پاکستان کے خلاف در اندازی کے مرتکب انڈین ونگ کمانڈر ابھے نندن کی رہائی کا یکطرفہ فیصلہ بھی پاکستان کی امن پسندی اور جنگی ماحول کے خاتمے کی خواہش کا ایک اور اظہار ہے، حالانکہ بھارتی سیکرٹری خارجہ نئی دہلی میں میڈیا سے بریفنگ میں بڑ ہانک چکا تھا کہ ان کا ملک اپنے افسر کی رہائی کے لیے پاکستان سے درخواست کرے گا، نہ ان کے ایٹمی ہتھیاروں کے رعب میں مذاکرات کی میز پر آئے گا۔ پاکستان کے سیاسی، سفارتی اور عسکری تجزیہ نگاروں (اور سیاسی و مذہبی جماعتوں) کی طرف سے بھی، بھارت کی مسلسل ”شر سگالی‘‘ کے باوجود پاکستان کے یکطرفہ اظہار خیر سگالی کی تحسین کی گئی، اگر چہ ایک رائے یہ بھی تھی کہ ونگ کمانڈر نندن کی گرفتاری اپنے ریٹائرڈ کرنل حبیب کی رہائی کے لیے سودے بازی کا اچھا موقع تھا، جسے انڈین را نے، ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازمت کی آڑ میں ٹریپ کیا اور وہ کئی ماہ سے دشمن کی اذیت ناک قید میں ہیں۔ (ہمارے ہاں تو انڈین قیدی کے لیے دو، اڑھائی دن کی حراست بھی جنیوا کنونشن کی سہولتوں سے زیادہ آرام دہ تھی۔)
وہ جو اقبال نے کہا تھا، خاص ہے ترکیب میں قومِ رسول ہاشمی۔ کسی بڑے بحران، کسی سنگین چیلنج میں پاکستانی قوم کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے۔ یہ معاملہ ہندوستا ن کی طرف سے ہو تو قوم رسولِ ہاشمی کا جذبہ بے حد و بے کنار ہو جاتا ہے۔ ہندوستان کے جارحانہ عزائم کے جواب میں پاکستانی قوم اپنے تمام تر اختلافات اور تعصبات کو بھول کر متحد و متفق ہو گئی۔ اس حوالے سے اپوزیشن جماعتوںکی قیادت کا رویہ بھی قابلِ رشک اور قابل قدر ہے لیکن کیا یہ بات حکمران جماعت (اور اس کی لیڈرشپ) کے حوالے سے بھی کہی جا سکتی ہے؟ پلوامہ واقعہ پر مودی کے جارحانہ عزائم فوری قومی اتفاق رائے کے متقاضی تھے اور اس کے اہتمام کی زیادہ ذمہ داری حکمران جماعت پر تھی۔ سعودی ولی عہد کی آمد نے اس کا موقع بھی مہیا کر دیا تھا لیکن اس دوران اور اس کے بعد بھی ”چور کو چور نہ کہیں، ڈاکو کو ڈاکو نہ کہیں تو کیا کہیں‘‘ کی گردان جاری رہی۔ سپیکر سندھ اسمبلی کی اسلام آباد میں گرفتاری (اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ناروا سلوک) کا واقعہ اور قومی اسمبلی کے اجلاس میں خواجہ سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر کے مسئلے پر ہنگامہ بھی اس دوران ہوا۔ پارلیمانی لیڈروں کے لیے عسکر ی قیادت کی بریفنگ میں بھی وزیر اعظم (اپنے چیمبر میں موجود ہونے کے باوجود) تشریف نہ لائے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف میں فاصلہ برقرار رہا۔ ٹی وی کے سامنے بیٹھے ہوئے کروڑوں پاکستانیوں کی آنکھیں دونوں میں مصافحہ کے خوش کن مناظر کو ترس کر رہ گئیں اور… ایک گلہ شہباز شریف سے بھی، انہوں نے پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کا ذکر تو کیا (اور بجا طور پر کیا) اول الذکر نے اس کا آغاز کیا تو مؤخرالذکر نے بے پناہ عالمی دباؤ کے باوجود دھماکوں کا جرأت مندانہ فیصلہ کیا لیکن ضیاء الحق نامی ایک شخص بھی تھا جس کے دور میں پاکستان نے یہ صلاحیت حاصل کی۔ کچھ کریڈٹ ان کا ( اور ان کی افغان پالیسی کا) بھی تھا‘ لیکن ڈکٹیٹروں کے ساتھ یہ المیہ بھی تو ہوتا ہے کہ ان کے جانے کے بعد انہیں ”اون‘‘ کرنا، ان کی اچھی باتوں کا ذکر کرنا بھی آسان نہیں ہوتا۔