چوہدری نثار علی خان موجودہ حکومت کے واحد وزیر ہیں جو ملک میں وزیراعظم محمد نواز شریف کی شخصیت کے بعد سب سے زیادہ ’’موضوع گفتگو ‘‘ رہتے ہیں پیپلزپارٹی نے توچوہدری نثار علی خان یر تنقید کرنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ عمران خان نے بھی سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ کی آڑ میں چوہدری نثار علی خان سے استعفے کا مطالبہ کر دیا ہے۔پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی سوئی پچھلے کئی دنوں سے چوہدری نثار علی خان سے استعفے پر اٹکی ہے جب سے سپریم کورٹ کے قائم کردہ کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ایک بار پھر چودھری نثار علی خان پر’’حملہ‘‘ کرنے کا موقع مل گیا چونکہ کمیشن کی رپورٹ میں وفاقی وزارت داخلہ کی کارکردگی پر سوال اٹھائے گئے ہیں اس لئے چوہدری نثار علی خان نے اپنی پوزیشن کی وضاحت کی پورا پاکستان کسی وزارت کی کارکردگی کا معترف ہے تو وہ وزارت داخلہ ہے جس کی شاندار کارکردگی حکومت کے ماتھے کا ’’جھومر‘‘ ہے چوہدری نثار علی خان کے سیاسی مخالفین بھی وزارت داخلہ کی کار کردگی کا برملا اعتراف کرتے ہیں لیکن کمیشن کی رپورٹ میں وزارت داخلہ کی کارکردگی کے حوالے سے اٹھائے گئے سوالات نے چوہدری نثار علی خان کو سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ میں صفائی پیش کرنے پر مجبور کر دیا ہے انہوں نے اپنے اوپر لگائے گئے تمام الزامات کا ہر پلیٹ فارم پرجواب دینے کا فیصلہ کیا ہے چوہدری نثار علی خان کا موقف ہے کہ پاکستان میں جس نے نیشنل ایکشن پلان پڑھا تک نہیں وہ بھی اس میںکیڑے نکال رہا ہے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان اور وفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے سانحہ کوئٹہ کے حوالے سے کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد وزیراعظم محمد نوازشریف سے ملاقات کی تین گھنٹے تک جاری رہنے والی ملاقات میں اٹارنی جنرل اشتر اوصاف علی موجود تھے جس میں رپورٹ کے تمام پہلوئوں کا جائزہ لینے کے بعد وزیراعظم نے چوہدری نثار علی خان کو رپورٹ کے حوالے سے اپنی وضاحت کرنے اور سپریم کورٹ میں رپورٹ کو چیلنج کرنے اجازت دے دی چوہدری نثار علی خان نے کہا کہ’’ وہ سپریم کورٹ سے احترام کے ساتھ انصاف کے لئے رجوع کریں گے، سانحہ کوئٹہ کے تناظر میں جہاں تمام حقائق سپریم کورٹ کے سامنے رکھیںگے وہاں سپریم کورٹ کو وزارت داخلہ کی پونے چار سال کی کارکردگی سے بھی آگاہ رکھیں گے ملاقات کی طوالت کے باعث پریس کانفرنس ملتوی کرنا پڑی ملاقات میں وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے وزیراعظم کو مستعفی ہونے کی پیشکش کی جسے وزیراعظم نے یہ کہہ کر مسترد کر دیا ’’حکومت کو آپ کی کارکردگی پر فخر ہے۔‘‘ بات بات پرچوہدری نثار علی خان سے استعفے کا تقاضا کرنے والوں کو شاید یہ علم نہیں وہ پچھلے پونے چار سال میں چار مرتبہ وزارت سے استعفے دے چکے ہیں ہر بار وزیراعظم نے ان کا استعفیٰ مسترد کر دیا۔ ’’ شدید اختلاف اور ناراضی‘‘ کے باوجود وزیراعظم نے ان کے استعفیٰ کو قبول نہیں کیا۔ اگلے روز چوہدری نثار علی خان سے پنجاب ہائوس میں ڈیڑھ گھنٹے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ان تمام عوامل پر روشنی ڈالی جس میں ان کا موقف سنے بغیر رپورٹ تیار کر لی گئی چودھری نثار علی خان کا کہنا ہے 35 سالہ سیاسی زندگی میں بڑی وزارتیں دیکھی ہیں ان کے لئے اس منصب میں کوئی کشش نہیں ان کے سیاسی مخالفین بالخصوص جن کی ’’دم ‘‘ ایف آئی اے کے پائوں تلے آئی ہوئی ہے وہ کبھی انہیں ’’وزارت عظمیٰ‘‘ کا امیدوار بنا دیتے ہیں کبھی مجھ پر’’سازش‘‘کا الزام عائد کرتے ہیں انہیں شاید علم نہیں چوہدری نثار علی خان کو تین بار وزارت عظمیٰ ’’طشتری‘‘ میں پیش کی گئی لیکن انہوں نے اپنے لیڈر سے بے وفائی کے صلے میں وزارت عظمٰی کو ٹھوکر مار دی۔
چودھری نثار علی خان نے پنجاب ہائوس میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس میں انہوں کچھ حقائق سپریم کورٹ کے لئے چھوڑ دئیے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اہلسنت و الجماعت کے وفد سے ملاقات کی اور نہ ہی کسی کو جلسے کی اجازت دی۔ نیکٹا بورڈ آف گورنرز کا اجلاس نہ ہونے کے بارے میں سوال وزیراعظم ہائوس سے کیا جانا چاہیے پارلیمنٹ میں میرے خلاف جتنی بھی تحاریک التوا پیش کردی جائیں، ان کا سامنا کروںگا،۔ میں نے ہمیشہ عدالتی فیصلوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا ہے مگر میڈیا کے ذریعے میری اور حکومت کی کردار کشی پر تشویش ہے چونکہ سپریم کورٹ نے تین ہفتہ کی مہلت دے دی اس دوران میں کچھ بول نہیں سکوں گا کیونکہ مجھے کہا گیا ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے جبکہ میرے ’’خیر خواہ ‘‘جو منہ میں آ رہاکہہ رہے ہیں کسی کو یہ احساس نہیں ہے کہ ملک کی سلامتی کے امور انتہائی حساس ہیں مجھے نقصان تو برداشت ہے لیکن اس ملک کے سیکورٹی اداروں، اس کے انٹیلی جنس اداروں، سیکیورٹی پلان، دہشتگردی کے خلاف جنگ کو آئندہ تین ہفتہ میں جو نقصان ہو گا اللہ تعالٰی ہم پر رحم فرمائے تین ہفتہ تو انتظار نہیں ہو سکتا۔ میں معاملہ قابل احترام سپریم کورٹ کے سامنے رکھوں گا اور قوم کے سامنے بھی۔ بہت ہو چکا میں اپنے دفاع کا پہلو قوم کے سامنے رکھنا چاہوں گا کیونکہ کمیشن کی رپورٹ میں تصویر کا صرف ایک رخ بیان کیاگیا میں ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم رکھتا ہوں کیونکہ اندرونی سلامتی کی ذمہ داری انتہائی حساس ہے بدقسمتی کی بات ہے کہ جہاں کامیابیاں ہوتی ہیں وہاں بہت سے اعتراضات نکل آتے ہیں جہاں ناکامی ہوتی ہے وہ میری اور میری وزارت کی ذمہ داری نہ ہونے کے باوجود وزارت داخلہ بالخصوص اور حکومت پر بالعموم ڈال دی جاتی ہے چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا کہ 7774 سیکورٹی معلومات کا دوسرے اداروں کے ساتھ تبادلہ کیا گیا۔ انٹیلی جنس کی بنیاد پر20 ہزار آپریشن ہوئے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ چوہدری نثار علی خان نیشنل ایکشن پلان کے خالق ہیں انہوں نے دن رات محنت کر کے اس کو تیار کیا اس میں وزارت داخلہ سے متعلق چار نکات ہیں جن پر سب سے زیادہ کام ہوا ہے باقی جو کام تعاون کا تھا وہ چوہدری نثار علی خان اورجنرل ناصر جنجوعہ کر رہے ہیں۔
چوہدری نثار علی خان کو میں نے پہلی بار مضطرب پایا ان کا کہنا تھا ’’میں 35 سال سے سیاست میں ہوں میرا ضمیر مطمئن ہے کیونکہ میں نے پیسے کو ذریعہ سیاست نہیں بنایا میں نے کوئی آف شور کمپنی نہیں بنائی، کوئی پٹرول پمپ یا فیکٹری نہیں لگائی‘‘ انہوں نے بین السطور ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری پر اپنے اختلاف بارے بتایا اور کہا کہ ’’جس دن ڈاکٹر عاصم گرفتار ہوا میں لندن میں تھا میں نے اس وقت ڈی جی رینجرز سے بات کی اور وزیراعظم سے بھی شیئر کیا اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے بھی تبادلہ خیال کیا۔ مجھے کچھ چھپانا نہیں ہے، میں نے سیکیورٹی کے فریم ورک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی دبائو کے باوجود قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف تحقیقات نہیں روکوں گا پیپلزپارٹی یا ڈاکٹر عاصم سے کوئی دشمنی نہیں، ماڈل ایان علی کا کیس وزرات داخلہ کا نہیں، وزارت خزانہ کا ہے یہ معاملہ صرف پانچ لاکھ ڈالرز کا نہیں،اس میں سیاسی گٹھ جوڑ بھی شامل ہے‘‘ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ’’عمران خان ہوں یا بچہ پارٹی اس معاملے پر بحث کیلئے تیار ہوں، ڈاکٹر عاصم کا کیس جنہوں نے بنایا ان کے خلاف کسی کو بولنے کی جرات نہیں‘ ایان علی کا نام وزارت خزانہ اور ایف بی آر کی سفارش پر ای سی ایل میں ڈال رکھا ہے‘‘ چوہدری نثار علی خان نے نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے ناقدین کو ’’مناظرے کا چیلنج دے دیاہے اب دیکھنا یہ ہے ان کے مخالفین لیگل نوٹسز کی طرح ’’خاموشی‘‘ اختیار کرتے ہیں یا ان کے چیلنج کو قبول کرنے کی جرات کرتے ہیں اس کے لئے ہمیں آنے والے دنوں میں انتظار کرنا پڑے گا